ہفتے کے روز یمن کے دارالحکومت صنعا اور کئی دوسرے شہروں میں خواتین کے بارے میں صدر کے تبصروں کے خلاف ہزاروں افراد نے، جن میں اکثریت خواتین کی تھی، مظاہرے کیے۔
جمعےکے روز صدر علی عبداللہ صالح نے حکومت مخالف مظاہروں میں مردوں کے ساتھ خواتین کی شرکت کو اسلامی قوانین کے خلاف قراردیتے ہوئے مخلوط مظاہرے ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے یہ بیان صنعا میں اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران دیا تھا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ ملک کو ان کی قیادت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ اقتدار میں ان کی موجودگی ایک آئینی تقاضا ہے۔
جب وہ تقریرکررہے تھے تو دارالحکومت میں ایک دوسرے مقام پر ان کے خلاف مظاہرہ کیا جارہا تھا۔
جنوری کے آخر میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے اب تک سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مظاہرین کا کہناہے کہ وہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے عاجز آچکے ہیں۔ حکومت کے خلاف حالیہ بے چینی کے آغاز سے قبل یمن کی حکومت کو ملک کے جنوبی حصے میں علیحدگی پسندی اور القاعدہ کی سرگرمیوں کے مسئلے کا سامنا تھا۔
جمعرات کے روز ایک مذہی تنظیم اور قبائلی سرداروں نے مظاہروں کی حمایت کرتے ہوئے صدرصالح کے استعفیٰ کا مطالبہ کیاتھا۔ ان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہاگیاہے کہ صدر کو پرامن مظاہرین کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے جلد ازجلد اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے۔
حزب اختلاف کے راہنماؤں نے مسٹر صالح کو اقتدار چھوڑنے کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دی ہے۔