یمن میں جاری خانہ جنگی کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں شریک فریقین نے ساحلی شہر حدیدہ میں جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔
منصوبے میں تجویز دی گئی تھی کہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ فورسز اپنے ہتھیار ڈال دیں گی اور شہر پر قابض حوثی باغی شہر سے پسپا ہوجائیں گے جس کے بعد شہر کا کنٹرول عارضی طور پر اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ انتظامیہ کے سپرد کردیا جائے گا۔
حدیدہ یمن کا چوتھا بڑا شہر اور بحیرۂ احمر پر واقع اس کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔
یمن میں جاری خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کے لیے تمام تر خوراک اور امداد حدیدہ کی بندرگاہ کے ذریعے ہی آتی ہے لیکن شہر میں جاری لڑائی کے باعث اس امداد کو آگے پہنچانے میں دشواری ہو رہی ہے۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ فریقین کے اختلافات کے بعد مجوزہ منصوبے پر نظرِ ثانی کی جا رہی ہے۔
سوئیڈن میں جاری مذاکرات کے دوران فریقین یمن کے تیسرے بڑے شہر تعز میں بھی لڑائی روکنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
مارٹن گرفتھس بھی بات چیت میں شریک ہیں جنہوں نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اگر وہ فریقین کو حدیدہ اور تعز میں لڑائی روکنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو صرف یہ کام بھی یمن کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔
مذاکرات میں شریک یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ طرفین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ تقریباً طے پاگیا ہے۔ تبادلہ ریڈکراس کی نگرانی میں ہوگا۔
سوئیڈن میں ہونے والے یہ مذاکرات 2016ء کے بعد یمن کے مسئلے پر ہونے والی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔
یمن میں جاری لڑائی اب تک 10 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ تنازع میں شریک حوثی باغیوں کو ایران جب کہ یمن کی حکومت کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مدد حاصل ہے۔
اقوامِ متحدہ یمن کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دے چکی ہے۔عالمی ادارے کے مطابق یمن بری طرح قحط کا شکار ہے اور اس کی 80 فی صد آبادی مناسب خوراک، صاف پانی اور طبی سہولتوں سے محروم ہے۔