سلطانہ کریمی کابل کے ایک گنجان آباد علاقے میں واقع ایک بیوٹی سیلون میں کام کرتی ہیں۔ 24 برس کی سلطانہ کو میک اپ اور ہیئر سٹائلنگ میں مہارت حاصل ہے، جس کی مناسب آمدنی سے وہ اپنا گھر چلاتی ہیں۔
وہ اور اس سیلون میں کام کرنے والی دیگر خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں انہیں سیلون کھولنے یا چلانے کی آزادی کبھی میسر نہ آتی۔
انھوں نے کہا کہ جنگجو عناصر کے نئی افغان حکومت میں شامل ہونے کی صورت میں بعید نہیں کہ پھر سے وہ پرانی پابندیاں واپس آجائیں اور خوشحالی کا دور پیچھے دھکیل دیا جائے۔
کریمی کو ڈر ہے کہ، ''طالبان کی واپسی سے ملک تباہی کی جانب چل پڑے گا۔ خواتین کو چھپ کر رہنا پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ انھیں برقعہ پہنا کر گھر پر بٹھا دیا جائے۔''
سلطانہ کریمی ایسی تنہا خاتون نہیں، جو ایسے اندیشوں کا شکار ہیں۔ افغانستان میں کاروبار اور اپنا روزگار کمانے والی کئی نوجوان خواتین اس بات پر فکرمند ہیں کہ نئی حکومت میں طالبان کی شرکت کی صورت میں ان کا اپنا روزگار کمانے کا خواب کہیں چکنا چور نہ ہو جائے۔
طالبان جنگجوؤن نے 1996 سے 2001ء تک اپنے دور حکومت کے دوران انتہائی سخت قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ انھوں نے طالبات کے لیے تعلیم کے حصول پر پابندی عائد کر رکھی تھی جب کہ ان کی جانب سے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی محرم کے بغیر ان کے گھر سے باہر آنے اور سفر پر پابندی عائد تھی۔
افغانستان میں حقوق انسانی کے امور سے متعلق سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے طالبان سے پیشگی ضمانتیں لی جائیں۔
ایسی بچیاں جو گزشتہ 20 برس کے دوران بڑی ہو ئیں، فکر مند ہیں کہ طالبان دور کی سابق پالیسیاں اپنائی گئیں تو، بقول ان کے، ''بہتر نئی اقدار کو تحفظ دینے کا کوئی اہتمام باقی نہیں رہے گا''۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ، اس وقت افغان خواتین نسبتاً جدید کپڑے پہنتی ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اتنی اجرت کما لیتی ہیں کہ خوشحال زندگی بسر کی جاسکے، اور بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دی جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق، آج کے افغانستان میں عام لوگوں کا رہن سہن پہلے کی نسبت کافی بہتر ہے۔ لوگ زندگی کے دیگر پیشوں میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے، تعلیم حاصل کرنے اور مسابقت کا راستہ اپنا کر اچھے روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
محبوبہ سراج ایک سرگرم کارکن ہیں۔ بقول ان کے، امریکہ کے دباؤ میں آکر افغان حکام طالبان کو حکومت میں شرکت کی دعوت تو دے رہے ہیں، ''لیکن، ایسا نہ ہو اس تجربے سے ملک کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا جائے، اور 20 سال میں حاصل کردہ فوائد اور ترقی تنزلی میں بدل جائے''۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان سے ضمانت لیں کہ وہ اپنے ماضی کے ڈگر پر نہیں چل پڑیں گے۔ بقول ان کے، ''اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا''۔
محبوبہ سراج نے کہا کہ ان 20 سالوں کے دوران خواتین کی تعلیم، اور صلاحیت کو پروان چڑھانے پر کافی کام کیا گیا، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف تعلیم کو فروغ دینے اور نئے ہنر سیکھنے اور سکھانے کا بندوبست کیا جائے، بلکہ پچھلی دو دہائیں کے دوران حاصل ہونے والے تجربے سے فائدہ لیتے ہوئے مزید پیش رفت حاصل کی جائے۔
اس حوالے سے خواتین کے حقوق کو خاص اولیت حاصل رہی ہے، جس سلسلے میں سرگرم کارکنان کو اب اصولی طور پر فکر لاحق ہے۔
ادھر، اطلاعات کے مطابق، گزشتہ ہفتے طالبان نے ایک بیان میں کہا کہ جس نئی حکومت کے وہ خواہاں ہیں، اس میں خواتین کو تعلیم، کاروبار، صحت اور سماجی میدان میں خدمات انجام دینے کی آزادی ہوگی۔ تاہم، انھیں اسلامی حجاب کی پابندی کرنا ہوگی۔
طالبان کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ''لڑکیوں کو اپنا جیون ساتھی چننے کی آزادی ہوگی''۔ لیکن، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر روایتی طور پر دقیانوسی انداز کی سوچ کو ترجیح دی جاتی رہی ہے، جس کے چنگل سے نکلنا مشکل مرحلہ ہوگا۔ افغان معاشرے میں روایتی طور پر لڑکیوں کےرشتوں کا انتخاب والدین خود کیا کرتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد لوگ ''درست حجاب'' کی اصطلاح پر اعتراض اٹھاتے ہیں اور انھیں اس کی پابندی کرانے پر اعتراض ہوگا۔ بقول ان کے، ''سخت گیر شریعت کے نفاذ کی صورت میں، حالات پھر سے دگرگوں ہوسکتے ہیں، اور اس امکان کی ضمانت کون کیسے دے سکے گا؟''