ممبئی سے تعلق رکھنے والے معروف مبلغ اور اسکالر ذاکر نائیک کو، جو ان دنوں ملائیشیا میں مقیم ہیں، بھارت کے حوالے کرنے کا قانونی عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے 52 سالہ ذاکر نائیک پر الزام لگایا ہے کہ وہ نوجوانوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کر رہے ہیں۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے لیے رقوم فراہم کرنے اور منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہیں۔ نائیک نے ان الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ انہیں بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری مذہبی ایذا رسانی اور عقوبت کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے اپنی ایک رپورٹ میں خارجہ أمور کی وزارت کے حوالے سے کہا ہے کہ جیسے ہی قانونی عمل مکمل ہو گا، ذاکر نائک کو بھارت کے حوالے کرنے کی باضابطہ درخواست بھیج دی جائے گی۔
بھارت کی خارجہ أمور کی وزارت کے ترجمان راویش کمار نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس مقدمے پر وزارت داخلہ کام کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ذاکر نائک پانچ سال قبل مستقل رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد سے ملائیشیا میں رہ رہے ہیں۔
بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کا یہ بھی الزام ہے کہ ذاکر نائیک اور ممبئی میں قائم ان کا غیر منافع بخش اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن، مذہبی منافرت کو فروغ دینے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
انہوں نے یہ ادارہ 1991 میں قائم کیا تھا۔ بھارتی حکومت انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر پانچ سال کی پابندی عائد کر کے ذاکر نائیک کو مفرور قرار چکی ہے۔
این آئی اے کی سفارش پر بھارتی حکومت ذاکر نائیک کا پاسپورٹ بھی منسوخ کر چکی ہے۔
ذاکر نائیک بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے کشن چند چیلارام کالج میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی آف ممبئی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے 1991 میں اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس فاؤنڈیشن کے تحت ممبئی میں ایک اسلامک انٹرنیشنل اسکول اور یونائیٹڈ اسلامک ایڈ کا ادارہ بنائے گئے جس کا مقصد غریب مسلم طالب علموں کی تعلیم انہیں مالی وظائف دینا تھا۔
نائیک نے دنیا بھر میں آباد اردو بولنے اور سمجھے والے مسلمانوں تک اپنا پیغام پہنچانے لیے 2009 میں’ پیس ٹی وی‘ کی بنیاد رکھی اور تین سال کے بعد اس چینل کا دائرہ بنگالی زبان تک بڑھا دیا۔
بھارتی حکومت ان کے چینل کو غیر قانونی قرار دے کر بند کر چکی ہے۔ پیس ٹی وی کی نشریات پر بنگلہ دیش سمیت کئی دوسرے ملکوں میں بھی پابندی عائد ہے۔
ان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ سچائی، انصاف، اخلاقیات، ہم آہنگی اور دانائی کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ذاکر نائیک کے درس خلیجی ریاستوں اور عرب دنیا میں بھی بہت مقبول ہیں اور یوٹیوب پر موجود ان کے پروگراموں کی ریکارڈنگ دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہے۔
مڈل ایسٹ مانیٹر اور نیشن میں اس سال مئی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے کنگ سلمان نے ذاکر نائیک کو سعودی عرب کی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب بھارتی حکومت ان پر مقدمے چلانے کے لیے انہیں ملک میں واپس لانے کے قانونی تقاضے پورے کرنے میں مصروف ہے، ملائیشیا کی حزب اختلاف کی جماعت پی اے ایس نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے ذاکر نائیک کی ملک بدری کی درخواست رد کر دے کیونکہ بھارتی حکومت کی جانب سے ان پر لگائے گئے الزامات کا مقصد ان کے اثر و رسوخ اور بین الاقوامی کمیونٹی میں مذہبی شعور و آگہی پھیلانے کی کوششوں کا راستہ روکنا ہے۔