|
ویب ڈیسک – ’’پیدائش کے بعد مجھے جب گھر لایا گیا اور والد کی گود میں دیا گیا تو انہوں نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا۔ عام رواج تو یہ ہے کہ اس موقعے پر بچے کے کان میں اذان کے الفاظ پکارے جاتے ہیں۔ لیکن میرے والد نے اس وقت جو سرگوشی کی وہ طبلے کے بول تھے۔‘‘
اپنے ایک انٹرویو میں لیجنڈ طبلہ نواز ذاکر حسین نے طلبہ نوازی سے اپنے اور اپنے خاندان کے تعلق کو اجاگر کرنے کے لیے مثال کے طور پر یہ واقعہ پیش کیا تھا۔ آج وہ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو دنیا طلبہ نوازی کو ان کے نام سے جانتی ہے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ طبلہ نواز استاد ذاکر حسین کا انتقال اتوار کی شب امریکہ میں ہوا۔
ان کی عمر 73 برس تھی۔ ان کے خاندان کے جاری کردہ بیان کے مطابق انہوں نے سان فرانسسکو کے ایک اسپتال میں آخری سانسیں لیں جہاں وہ پھیپھڑوں کے مرض کے باعث زیرِ علاج تھے۔
ذاکر حسین کا کریئر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط تھا۔ اس میں نہ صرف انہوں نے روایتی طلبہ نوازی میں اپنی مہارت منوائی بلکہ مغربی موسیقاروں اور گیت نگاروں کے ساتھ کام کرکے اسے جدید موسیقی سے بھی ہم آہنگ کیا۔
انہوں نے جاز موسیقی کے سیکوفونسٹ چارلس لائیڈ، ڈرمر مکی ہارٹ اور برطانوی موسیقار جارج ہیریسن کے ساتھ بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں انسٹورومنٹ کانسرٹس میں بھی طبلہ نوازی کے فن کا مظاہرہ کیا۔
ذاکر حسین کے والد استاد اللہ رکھا خان بھی برصغیر میں طبلہ نوازی کے بڑے استادوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کا تعلق طبلہ نوازی کے پنجاب گھرانے سے تھا۔ موسیقی میں خاص انداز، اسلوب اور تکینک سے اپنی پہنچان بنانے والے اساتذہ اور ان سے سیکھنے والے شاگردوں کو گھرانہ کہا جاتا ہے۔
استاد ذاکر حسین 1951 میں ممبئی میں پیدا ہوئے اور ان کے والد نے سات برس کی عمر میں ان کی فنی تعلیم شروع کردی تھی۔ انہوں نے 12 سال کی عمر ہی سے کلاسیکی موسیقی کے کئی بڑے گائیکوں کے ساتھ پرفارم کرنا شروع کردیا تھا۔
سن 1973 میں ذاکر حسین نے ’شکتی‘ کے نام سے جاز گٹراسٹ جان مکلوہلن کے ساتھ ایک فیوژن بینڈ بنایا۔ اس بینڈ نے مغربی موسیقی کی صنف جاز اور بھارتی موسیقی کے ملاپ سے مغربی دنیا کو سروں کے منفرد ذائقے سے روشناس کرایا۔
ذاکر حسین کو 2024 میں تیسری بار موسیقی کا معتبر عالمی ایوارڈ گریمی دیا گیا۔ وہ تین بار یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے واحد بھارتی موسیقار ہیں۔ 2023 میں انہیں بھارت کا دوسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ پدما وِبھوشن بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارت میں فنکاروں کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ بھی دیا گیا۔
استاد ذاکر حسین نے طبلہ نوازی سے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ان گنے چنے کلاسیکی فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں جنھیں ان کی مقبولیت کی وجہ سے اشتہارات میں بھی کاسٹ کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس فن کو مقبول بنانے کے لیے بھی کام کیا اور بھارتی ٹیلی وژن پر طبلہ سکھانے کے پروگرامز بھی کیے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر طبلہ نوازی سے متعلق ان کے کئی لیکچرز اور پرفارمنسز موجود ہیں۔
گزشتہ برس پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے گفتگو میں ذاکر حسین نے کہا تھا کہ وہ طبلہ ان کے لیے ساز سے بڑھ کر ساتھی، بھائی اور دوست کی طرح ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ میں کسی ایسی جگہ کا تصور نہیں کرسکتا جہاں یہ موجود نہ ہو۔ یہی مجھے ہر صبح اٹھنے کا حوصلہ دیتا ہے تاکہ میں اسے ہیلو کہہ سکوں۔‘‘
استاد ذاکر حسین کے دنیا سے رخصت ہونے پر ان کے مداح، سیاسی رہنما اور فن کار انہیں ٹریبیوٹ پیش کر رہے ہیں اور اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ جب ذاکر علی نے فن کا آغاز کیا تو طبلہ نوازی ان کی اور ان کے گھرانے کی پہنچان تھی۔ لیکن اس فن سے ان کی گہری وابستگی کی وجہ سے اب وہ طبلہ نوازی کی پہچان بن گئے ہیں۔
اس خبر کی بعض تفصیلات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔