رسائی کے لنکس

الزائمر اور پارکنسن پر کنٹرول پانا ممکن ہو گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سائنس دانوں کو تحقیق کے دوران پتا چلا کہ اگر چوہوں کے دماغ میں سے عمر رسیدگی کا سبب بننے والے خلیوں کو نکال دیا جائے تو ان کی صحت مند زندگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

دماغ میں سے مردہ مگر زہریلے خلیے نکال دینے سے الزئمر مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

سائنس دانوں کو ایک عرصے سے معلوم تھا کہ دماغ میں موجود ایک خاص قسم کے خلیے بڑھاپے سے منسلک بیماریوں،مثلاً جوڑوں کا درد، شریانوں کے امراض، پارکنسن سے لے کر الزئمر تک کا باعث بنتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ان پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے۔

دماغ میں موجود ان خلیوں کو ’زامبی سیل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ خلیے ہوتے ہیں جو دوسرے خلیوں کے برعکس تقسیم نہیں ہوتے۔ لیکن وہ صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان خلیوں کا یہ عمل بڑھاپے میں تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس عمل کو عمر رسیدگی کہتے ہیں اور یہ عمل دودھ پلانے والے جانداروں میں عام ہے۔

سائنس دانوں کو تحقیق کے دوران پتا چلا کہ اگر چوہوں کے دماغ میں سے عمر رسیدگی کا سبب بننے والے خلیوں کو نکال دیا جائے تو ان کی صحت مند زندگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سائنسی جریدے’ نیچر‘میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں نے چوہوں کے دماغ میں الزائمر کا مصنوعی مرض پیدا کیا، جس سے ان میں یاداشت کی خرابی سمیت اس مرض کی دوسری علامتیں پیدا ہو گئیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ الزائمر کی وجوہات اور اس کے اثرات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا ایک کامیاب تجربہ تھا۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ الزائمر کی وجہ دریافت ہو جانے کے بعد بھی اس پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں، تاہم اس سمت آگے بڑھنے کا ایک راستہ مل گیا ہے۔

امریکی ریاست منی سوٹا کے میو کلینک میں ٹیلر بوسین کی قیادت میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے الزائمر کا سبب بننے والے جنیاتی طور پر تبدیل شدہ خلیے چوہوں پر استعمال کیے جس سے چوہے الزائمر کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے چوہوں کے دماغ میں سے عمررسیدگی سے منسلک الزائمر کی علامتیں پیدا کرنے والے خلیے نکال دیے تو ان کی یاداشت رفتہ رفتہ واپس آ گئی اور دوسری خرابیاں بھی دور ہوتی چلی گئیں۔

چوہوں پر اس کامیاب تجربے کے بعد الزائمر سمیت بڑھاپے کی بیماریوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی سمت پیش رفت ہوئی ہے، تاہم انسانوں تک پہنچے کے مرحلے میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG