’میں خود کو ایکٹیوسٹ نہیں کہتا مگر میں ایسا آرٹسٹ ہوں جس کا فن سیاسی ہے اور میرے نزدیک یہ خدمت کا شاید بہتر طریقہ ہے.‘ یہ الفاظ ذوالفقار علی بھٹو جونئیرکے ہیں۔ پاکستان کے اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر، میر مرتضی بھٹو کے بیٹے ہیں اور پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ہیں۔اگرچہ ان کا نام ان کے دادا کے نام پر ہی رکھا گیا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آرٹ کو اپنے سیاسی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
ذوالفقار جونئیر کہتے ہیں کہ“پاکستان کی موروثی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ سیاست دان نہ صرف یہ کہنے کو تیار ہیں کہ وہ مرنا چاہتے ہیں، بلکہ یہ بھی کہ وہ اور لوگوں کو بھی ساتھ لے کر مریں گے۔ میں یہ نہیں کرنا چاہتا۔ میرے والد قتل ہوئے، میرے دادا مارے گئے، میری پھپو ہلاک ہوئیں، میرے چچا کو مار دیا گیا، لیکن مسلسل یہ توقع کیوں کی جاتی ہے کہ ہمیں مرنا ہو گا۔یا اگر ہم نہیں مریں گے تو ہمارا مقصد کیا ہے‘
ذوالفقار علی بھٹو جونئیر کا نام ان کے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا اور میر مرتضی بھٹو کے بیٹے ہونے کے ناطے، ایک عام خیال یہ ہے کہ انہیں بھٹو خاندان کی سیاسی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے اور وہی درست جانشین ہیں۔
لیکن وہ کہتے ہیں، ’میں کسی کے لیے نہیں لڑنا چاہتا، پاکستانیوں کو اپنے لیے خود لڑنا چاہیے۔
ان کے بقول، ’پاکستان کو موروثی سیاست کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ضرورت نہیں کہ کوئی اس کے لیے کھڑا ہو اور لڑے۔ پاکستان اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ ‘
اسی تصور کے تحت ذوالفقار علی بھٹو جونئیرنے اپنے ایک آرٹ پراجیکٹ کے طور پر ایک کردار تخلیق کیا جس کا نام انہوں نے فالودہ اسلام رکھا۔
“فالودہ اسلام میری ہمزاد ہے۔ وہ شہادت کے لیے ہمارے جنون پر سوال اٹھاتی ہے۔ اس لیے اپنی لائیو پرفارمنس میں وہ زندہ لاش بنتی ہے اور پھر مر جانے والے تاریخی کرداروں سے مکالمہ کرتی ہے۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کردار کو میر ی شناخت سمجھنا ایک غلط تصور ہے۔ وہ محض ایک آرٹ پراجیکٹ ہے۔
’میں مختلف ہوں ‘
ذوالفقار علی بھٹو جونئیر اپنی صنفی شناخت کے مختلف ہونے کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یا ان کے خاندان کو، ’یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی کہ میں مختلف ہوں۔ کبھی لگتا تھا کہ شاید دنیا بھر سے یہ بات ہمیشہ چھپانی پڑے گی مگر میرے خاندان نے میرا ساتھ دیا۔ میری والدہ اور بہن سب لوگ، مجھے اور میرے کام کو ہمیشہ سراہتے آئے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا ہمیں سکھاتی ہے کہ مسلمان اور کوئیرنس ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ ہو سکتے ہیں اور میرا کام ہی یہی ہے کہ میں مختلف ہونے کے تصور کے ساتھ مسلمان اور ایشین ہونے کے تصور کو بھی پیش کرتا ہوں کیونکہ کوئیر ایک سیاست ہے ایک ایسی سیاست جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔‘
ذولفقار بھٹو جونئیر کہتے ہیں کہ ہم جنسی پرستی کو ہمیشہ ایک مغربی تصور سمجھا گیا لیکن ہم جنس پرستی تو ہر معاشرے میں ہے۔ اور پاکستان میں آج اس موضوع پر بات کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول، ’ دس سال پہلے جب میں نے تعلیم کے لیے پاکستان چھوڑا تھا، تو اس وقت وہاں ہم جنس پرستی یا اس سے جڑے موضوعات پر بات نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن اب کی بار پاکستان جا کر محسوس ہوا کہ ہوا تبدیل ہوئی ہے‘۔
'میری رلّیاں، میرے علم ہیں'
اپنے بچپن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو جونئیر کا کہنا تھا کہ وہ تین سال کے تھے، جب دمشق میں ان کی پیدائش کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا۔ اگرچہ ان کے والد نے انہیں ہمیشہ یہ بتایا کہ وہ سندھی ہیں لیکن وہ اپنے فنی اظہار میں اسلام اور دیگر ثقافتوں کو اجاگر کرتے ہیں اور صوفی مزاروں سے متاثر ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جونئیر چار سال سے امریکہ میں ہیں، جہاں انہوں نے آرٹس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ پرفارمنگ آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ کی روایتی رلّیاں یا چادریں بھی تیار کرتے ہیں۔ جن میں، ان کے بقول، مردانگی اور تشدد کے تصور کو پھولوں کی تصاویر اور رنگین کپڑوں کے ٹکڑوں کی مدد سے ایک مختلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
’میرا کپڑے کا کام ،میری رلّی۔۔۔ میں انہیں رلّی کہتا ہوں، جو ایک سندھی شے ہے
لیکن دراصل یہ رلّی نہیں، علم (جھنڈے) ہیں۔ مستقبل کے وہ علم، جن کی خوبصورتی اور رنگ ہماری شناخت میں اضافہ کرتے ہیں‘۔
رواں سال ستمبر میں ذوالفقار علی بھٹو کے فن پاروں کی نمائش پاکستان کے شہر کراچی میں منعقد ہوئی، جس میں وہ خود بھی شریک ہوئے۔