رسائی کے لنکس

ذوالقرنین حیدر کی 'مشکوک کہانی' بغیر کسی ہلچل کے ختم


ذوالقرنین حیدر کی 'مشکوک کہانی' بغیر کسی ہلچل کے ختم
ذوالقرنین حیدر کی 'مشکوک کہانی' بغیر کسی ہلچل کے ختم

گزشتہ دو برسوں سے پاکستان میں اگر چہ کرکٹ کا کوئی بین الاقومی مقابلہ نہیں ہوسکا مگر کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے آئے دن کے تنازعات دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے ۔ پی سی بی کی جانب سے پہلے تو کھلاڑیوں کو ان کے کیے پر سزائیں دی جاتی رہیں اور بعد میں یہی سزائیں معاف بھی کی جاتی رہیں۔ پہلے شاہدآفریدی اور جمعہ کو ذوالقرنین حیدرکو جرمانے کی قابل برداشت سزائیں ہوئیں اور گویا تمام گلے شکوے جاتے رہے۔۔۔ بالکل اسی طرح جیسے بچپن اور لڑکپن کی کہانیوں کے اختتام میں لکھا ہوتا ہے۔۔"اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔"

وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر 8نومبر 2010ء کوایک ایسی' کہانی 'لے کر دنیا کے سامنے پیش ہوئے جس میں دنیا کے لئے بہت سارے سوالات تھے اور جن پر پہلے سب حیرت میں پڑے، پھر تجسس بڑھا، سب ذوالقرنین سے اہم رازوں کی توقع کرنے لگے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ کہانی پھیکی پڑتی گئی۔۔۔اور جمعہ کو گویا یہ کہانی اپنے اختتام کو پہنچی ۔ مگر وہ سوالات ۔۔وہ راز ۔۔۔وہ انکشافات جن کا گاہے بگاہے وعدہ ہوتا رہا ۔۔۔وہ بغیر کوئی ہلچل پیدا کئے ، اپنی موت آپ مر گئے۔

یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی جب دورہ دبئی کے دوران جنوبی افریقہ کے مقابلے میں کھیلے جانے والے میچ سے قبل ہی ذوالقرنین حیدر پر اسرار طور پر ہوٹل سے غائب ہو گئے ۔ تقریباً بارہ گھنٹے تک بورڈ انہیں ڈھونڈتا رہا لیکن وہ کہیں نہیں ملے۔ پھر اچانک ہی معلوم ہوا کہ ایک سوشل ویب سائٹ 'فیس بک' سے ذوالقرنین کا یہ پیغام آیا ہے کہ ”مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ میں جنوبی افریقہ سے میچ میں ٹیم کی شکست کا سبب بنوں اوراگر میں نے ایسا نہ کیا تو مجھے جان سے مار دیا جائے گا “

اس پیغام کے بعد پورا میڈیا اور دنیائے کرکٹ ذوالقرنین کی تلاش میں لگ گئی۔ اسی دوران اطلاع آئی کہ ذوالقرنین سیاسی پناہ کی تلاش میں لندن جا پہنچے ہیں جہاں انہوں نے ایک جانب تو عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو دوسری جانب یہ بیان بھی داغ دیا کہ وہ میچ فکسنگ میں ملوث چند ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے والے ہیں جن کے نام سن کر بھونچا ل آ جائے گا ۔ اس بیان نے کرکٹ کے ایوانوں میں ایسی ہلچل مچائی کہ ذوالقرنین کا خود اس سے بچنا مشکل ہو گیا ۔

ذوالقرنین کے اس' ایڈونچر' میں پی سی بی کچھ خفا خفا نظر آیا۔ اس نے11 نومبر 2010ء کو ان کا سینٹرل کنٹریکٹ ختم کر دیا جبکہ وزارت کھیل نے بھی ذوالقرنین کی خوب سرزنش کی۔ تاہم دوسری جانب شائقین کرکٹ کی تمام ہمدردیاں ذوالقرنین کے ساتھ ہوگئیں کیونکہ انہیں تو سنسنی خیز انکشافات کا انتظار تھا ۔ مگر ذوالقرنین نئی نئی تاریخوں کا اعلان کرتے رہے ۔ کبھی وہ کہتے کہ میں فلاح دن دنیا کو ہلا دوں گا۔۔ کبھی وہ کہتے فلاں دن پردہ نشینوں کے نام سامنے آجائیں گے۔۔بلاخر " تاریخ پہ تاریخ۔۔ تاریخ پہ تاریخ" ..پڑتی رہی اور وہ، کرکٹ کے چاہنے والوں، سابق کرکٹرز اور میڈیا کے صبر کا امتحان بن گئے ۔

اس دوران ان کا ایک بیان یہ بھی آیا کہ اگر وہ انکشافات کریں گے تو پاکستان میں ان کے اہلخانہ کی زندگیاں خطرات سے دو چار ہو جائیں گی ۔ اس بیان کے بعد حکومت نے ان کی فیملی کو سیکورٹی فراہم کر دی تاہم اس کے باوجود بھی کوئی نئی بات وہ سامنے نہیں لاسکے ۔ ذوالقرنین کے اس رویے سے سابق کرکٹرز اور تجزیہ کاروں کی جانب سے بھی سخت رد عمل سامنے آیا ،یہاں تک کہ سابق کپتان عمران خان بھی چپ نہ رہ سکے ۔ جس پر ذوالقرنین کی جانب سے عمران خان اور ایک نجی ٹی وی چینل کے خلاف ہرجانے کا اعلان بھی کیا گیا مگر پھر خاموشی چھا گئی ۔

پرایک اور انکشاف کی باری آئی۔ انہوں نے کہا کہ وکٹ کیپر کامران اکمل کے سسر کے میچ فکسنگ کرنے والے عناصر سے روابط ہیں تاہم جب دوسری جانب سے دس کروڑ ہرجانے کا اعلان کیا گیا تو ذوالقرنین اپنے ہی بیان سے مکر گئے ۔

29 جنوری 2011ء کو پاکستان میں عدم تحفظ کا شکار ذوالقرنین کی فیملی لندن جانے لگی تو لاہور ائیر پورٹ پر انہیں روک لیا گیا جس کے بعد یہ خبریں بھی آئیں کہ وذالقرنین نے اس رویہ کے خلاف برطانوی شاہی محل کے سامنے خود کشی کی دھمکی دے دی ہے ۔

دس اپریل دو ہزار گیارہ کو وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک لندن جا پہنچے ۔ انہوں نے ذوالقرنین حیدر کو پاکستان میں سیکورٹی کی متعدد یقین دہانیاں کروائیں۔ جس کے چھ دن بعد یعنی سولہ اپریل 2011ء کو ذوالقرنین نے لندن میں سیاسی پناہ کی درخواست واپس لے لی اور پچیس تاریخ کو وہ اسلام آباد پہنچ گئے۔

18 مئی کو پی سی بی نے ذوالقرنین حیدر کے معاملے پر ڈسپلنری کمیٹی قائم کی جس سے امید کی جا رہی تھی کہ لندن میں جو انکشافات سامنے نہیں آ سکے وہ اس کمیٹی کے ذریعے منظر عام پر ا ٓجائیں گے ، مگر ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح شائقین کرکٹ کو مایوسی ہوئی۔

جمعہ 17جون کو ذوالقرنین حیدر نے اعتراف کیا کہ دبئی سے اچانک غائب ہو کر لندن سے نمودار ہونا ان کی غلطی تھی لہذا پی سی بی نے بھی ان پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا ۔

اگر چہ پی سی بی میں ذوالقرنین حیدر کی ایڈونچرس کہانی ، کسی نئی کہانی کے جنم لینے تک ختم ہو گئی ہے مگر عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات اب بھی جواب طلب ہیں مثلاً

۔آخر ذوالقرنین کو دھمکیاں دینے والے کون لوگ تھے ؟
۔اگر اب ذوالقرنین پاکستان کیلئے کھیلتے ہیں تو کیا لندن سے پناہ مانگنے والے ذوالقرنین کو اب کوئی دھمکی نہیں ملے گی اس کی یقین دہانی کس نے کرائی ؟
۔ذوالقرنین جب ہوٹل سے غائب ہوئے تھے تو وہاں لگے سی سی ٹی وی کیمروں ، ٹیلی فون کالز کے ریکارڈ اور ساتھی کھلاڑیوں یا دوسرے ذریعہ سے ابتدائی تحقیقات کے کیا نتائج سامنے آئے ؟
۔ذوالقرنین نے لندن میں ہی سیاسی پناہ کیوں تلاش کی ؟
۔لندن جانے کی ان کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ انہوں نے نہ تو پی سی بی کو آگاہ کیا اور نہ ہی پاکستانی حکومت کو ؟
۔شروع میں ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس لندن میں نہ تو رہائش کے پیسے ہیں اور نہ ہی پناہ کی درخواست کرنے کے لئے وکلاء تو پھر اچانک سے ان کے پاس روپیہ کہاں سے آیا ؟
۔کامران اکمل فیملی پر ہی انہوں نے میچ فکسنگ کے الزامات کیوں لگائے ؟
۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ذوالقرنین نے یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا ہوجس کا مقصد برطانیہ کی شہریت حاصل کرنا تھا ؟

XS
SM
MD
LG