کراچی میں ماہ رمضان کے دوران سڑکوں پر کشادہ اور طویل دستر خوان اس شہر کی ایک روایت ہے۔
کراچی میں افطاری سے آدھا گھنٹے قبل سڑکوں پر دستر خوان لگنا ایک ایسی روایت ہے جو مشکل معاشی حالات کے باوجود بھی کسی طور کم ہوتی نظر نہیں آتی۔
چاہے شہر کی قدیم فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ ہو یا پھر نمائش، گلشن یا کوئی اور علاقہ، ہر جگہ کشادہ اور طویل دستر خوان اس شہر کی فیاضی کی تصویر ہے۔ یہاں ذات پات نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر ہر شخص چاہے روزے سے ہو یا نہیں اذان مغرب کے ساتھ ہی اس دسترخوان پر ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے حصہ کا رزق اٹھاتا ہے۔
نقی دہلوی شہر کے چند مخیر اور کاروباری حضرات کے ساتھ مل کر برنس روڈ کے علاقے میں 1987 سے افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی اور بدامنی سے ہر طبقہ متاثر ہے لیکن شہر میں مخیر حضرات کی کمی نہیں۔
”اس سال بہت مشکلات ہیں ہر چیز مہنگائی کے تناظر سے خریدی جا رہی ہے۔ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے… یہ سمجھ لیں کیلا جو بیس سے تیس روپے درجن ملتا تھا اب ستر اسی روپے درجن مل رہا ہے لیکن کراچی میں ایسے لوگ آگئے ہیں جو افطاری کے ساتھ کھانے کا بھی بندوبست کر رہے ہیں۔‘‘
برنس روڈ سے تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد مزارِ قائد کے سامنے نمائش کا علاقہ ہے۔ یہاں مقامی فلاحی ادارے شیخانی فاوٴنڈیشن کی جانب سے روزانہ افطار کا انتظام ہوتا ہے جس کے ایک منتظم محمود شیخانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ معاشی مشکلات کے باعث افطاری کے لیے آنے والوں کی تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔
’’پہلے چھ سو، آٹھ سو آدمیوں کا (بندوبست) تھا اس دفعہ ہم نے دو ہزار آمیوں کو (افطاری کرانے) کا انتظام کیا ہے۔ لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ ایسی چیزیں زیادہ کریں اس سے کراچی میں بہتری ضرور آئے گی۔“
افطاری کے اس انتظام میں اکثر راہ گزرتے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سرکاری ادارے میں ملازم وقار سلطان کہتے ہیں کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
” یہ وہی کراچی شہر تھا جہاں ہم رات کو دو دو بجے گھوما کرتے تھے لیکن اب تو رمضان میں بھی یہاں جلد سناٹا ہوجاتا ہے۔‘‘
وقار سلطان مخیر حضرات کی کاوشوں کو سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہر میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو رمضان کے دوران نہ صرف افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں بلکہ لوگوں کو راشن بھی دے رہے ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز کراچی گذشتہ کئی سالوں سے بدامنی کا شکار ہے جس نے لوگوں کا روزگار اور کاروبار شدید متاثر کیا ہے مگر یہاں لوگ مذہب اور قومیت سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔
چاہے شہر کی قدیم فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ ہو یا پھر نمائش، گلشن یا کوئی اور علاقہ، ہر جگہ کشادہ اور طویل دستر خوان اس شہر کی فیاضی کی تصویر ہے۔ یہاں ذات پات نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر ہر شخص چاہے روزے سے ہو یا نہیں اذان مغرب کے ساتھ ہی اس دسترخوان پر ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے حصہ کا رزق اٹھاتا ہے۔
نقی دہلوی شہر کے چند مخیر اور کاروباری حضرات کے ساتھ مل کر برنس روڈ کے علاقے میں 1987 سے افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی اور بدامنی سے ہر طبقہ متاثر ہے لیکن شہر میں مخیر حضرات کی کمی نہیں۔
”اس سال بہت مشکلات ہیں ہر چیز مہنگائی کے تناظر سے خریدی جا رہی ہے۔ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے… یہ سمجھ لیں کیلا جو بیس سے تیس روپے درجن ملتا تھا اب ستر اسی روپے درجن مل رہا ہے لیکن کراچی میں ایسے لوگ آگئے ہیں جو افطاری کے ساتھ کھانے کا بھی بندوبست کر رہے ہیں۔‘‘
برنس روڈ سے تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد مزارِ قائد کے سامنے نمائش کا علاقہ ہے۔ یہاں مقامی فلاحی ادارے شیخانی فاوٴنڈیشن کی جانب سے روزانہ افطار کا انتظام ہوتا ہے جس کے ایک منتظم محمود شیخانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ معاشی مشکلات کے باعث افطاری کے لیے آنے والوں کی تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
’’پہلے چھ سو، آٹھ سو آدمیوں کا (بندوبست) تھا اس دفعہ ہم نے دو ہزار آمیوں کو (افطاری کرانے) کا انتظام کیا ہے۔ لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ ایسی چیزیں زیادہ کریں اس سے کراچی میں بہتری ضرور آئے گی۔“
افطاری کے اس انتظام میں اکثر راہ گزرتے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سرکاری ادارے میں ملازم وقار سلطان کہتے ہیں کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
” یہ وہی کراچی شہر تھا جہاں ہم رات کو دو دو بجے گھوما کرتے تھے لیکن اب تو رمضان میں بھی یہاں جلد سناٹا ہوجاتا ہے۔‘‘
وقار سلطان مخیر حضرات کی کاوشوں کو سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہر میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو رمضان کے دوران نہ صرف افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں بلکہ لوگوں کو راشن بھی دے رہے ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز کراچی گذشتہ کئی سالوں سے بدامنی کا شکار ہے جس نے لوگوں کا روزگار اور کاروبار شدید متاثر کیا ہے مگر یہاں لوگ مذہب اور قومیت سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔