فوج کے کاروباری مفادات ساری معیشت میں پھیلے ہوئے ہیں اور اب ان کی جانچ پڑتال میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ترکی کی حکمران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے ملک کی فوج کو جو کبھی ہر چیز پر حاوی تھی، سیاست سے نکال کر بیرکوں میں واپس بھیج دیا ہے۔ لیکن فوج کے کاروباری مفادات بھی ساری معیشت میں پھیلے ہوئے ہیں اور اب ان کی جانچ پڑتال میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ترکی میں آپ کو چاکلیٹ خریدنی ہو، انشورنس کرانا ہو یا کوئی مکان یا گاڑی لینی ہو، امکان یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس میں ’او وائے اے کے‘ کا دخل ضرور ہو گا۔ ’او وائے اے کے‘ ٹرکش آرمڈ فورسسز اسسٹنٹ اینڈ پینشن فنڈ یا ترکی کی مسلح افواج کے امدادی اور پینشن فنڈ کا نام ہے۔
فوجی امور کی ماہر اور اخبار طاراف کے انقرہ بیورو کی سربراہ لیلیٰ کمال کہتی ہیں کہ ’او وائے اے کے‘ اس دور کی باقیات ہے جب ملک پر فوج کا غلبہ تھا۔
’’یہ ایک عجیب و غریب ادارہ ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ یہ پرانے زمانے کے لاطینی امریکہ کے ملکوں یا چین یا مصر کی طرح ہے جس کا قانون کی بالا دستی یا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
لیکن ’او وائے اے کے‘ کے کاروباری معاملات کی سیاسی جانچ پڑتال شروع ہو چکی ہے۔ گذشتہ مہینے، جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے ترجمان حسین کلیک نے اعلان کیا کہ پارلیمینٹ پینشن فنڈ کے وجود اور اس کی سرگرمیوں کی تفتیش کرے گی۔
جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے دورِ حکومت میں، ملک کے جنرلوں کی کل تعداد کا پانچواں حصہ یا تو جیل میں ہے، ان پر مقدمے چلائے جا رہے ہیں، یا اقتدار پر قبضہ کرنے کی مختلف سازشوں کے الزام میں مقدموں کا انتظار کر رہا ہے۔ ملک میں جتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی چھان بین ہوئی ہے اس کے نتیجے میں فوج کو سیاست سے الگ ہونا پڑا ہے۔
لیکن استنبول کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر چنگیز اختر کہتے ہیں کہ فوج کی اقتصادی طاقت کے خلاف کارروائی کرنا انتہائی اہم ہے۔
’’فوج کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا بڑا طویل عمل ہے۔ جب تک فوج کی مالیاتی اور قانونی مراعات ختم نہیں کی جائیں گی ملک پر فوج کے غلبے کو مکمل طور سے ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
فوج کے افسروں نے جب ملک میں اقتدار پر پہلی بار قبضہ کیا تو اس کے چند مہینے بعد 1961 میں ’او وائے اے کے‘ قائم کی گئی تاکہ فوج کے تمام سپاہیوں کے لیے پنشن کا بندوبست کیا جا سکے۔
بعد کے برسوں میں اس پینشن فنڈ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ 2009 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس میں 30,000 لوگ ملازم ہیں۔ اس کے اثاثوں کی مالیت 15 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جو 60 کمپنیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سال ’او وائے ایے کے، رینلیٹ‘ پروڈکشن لائن سے چالیس لاکھویں کار تیار ہو کر نکلی۔ یہ مشترکہ کاروبار 1971 میں شروع ہوا تھا۔
اگرچہ اس کمپنی کے بورڈ اور جنرل اسمبلی پر فوج کے ریٹائرڈ سینیئر افسروں کا غلبہ ہے، لیکن ’او وائے اے کے‘ کا کہنا ہے کہ یہ مسلح افواج کا حصہ نہیں ہے ۔
ترک فوج کے تجزیہ کار گریتھ جینکنز کہتے ہیں کہ ’او وائے اے کے‘ کے معاملے میں بے اطمینانی اب نان کمیشنڈ افسروں تک پھیل گئی ہے۔ انسانی حقوق کی یورپی کورٹ، نان کمیشنڈ افسروں کی طرف سے ’او وائے اے کے‘ کے خلاف دائر کیے ہوئے ایک کیس پر غور کر رہی ہے جس میں کمپنی کے بورڈ میں نمائندگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
’’میرے خیال میں او وائے اے کے کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ریٹائرڈ جنرلوں کے لیے امپلائنٹ ایجنسی کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا ۔ جن لوگوں کو کام کرنے کے لیے او وائے اے کے کی ضرورت تھی، وہ نان کمیشنڈ افسر اور جونیئر افسر تھے۔ لیکن اسے بڑی حد تک اعلیٰ رینک کے افسروں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
او وائے اے کے چیئرمین یلدریم ترکر کو جو جیل میں ہیں، قانونی مسائل کا بھی سامنا ہے ۔ یہ وہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں جن پر 1997 میں اس کارروائی میں شرکت کا الزام ہے جس کے نتیجے میں اسلام پسندوں کی قیادت میں قائم حکومت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
تجزیہ کار جنکنز کہتے ہیں کہ فوج کی جو سیاسی اور عدالتی جانچ ہو رہی ہے، اس کے نتیجے میں او وائے اے کے میں تبدیلی کا امکان ہے۔
’’اگر یہ کمپنیاں کسی طرح آرمی پینشن فنڈ سے واپس لے لی جاتی ہیں، تو ان کے اثاثے ان لوگوں کو منتقل ہو جائیں گے جو حکمراں پارٹی کے نزدیک ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں میں ہم نے ترکی میں یہ دیکھا ہے کہ نظام ویسا ہی رہتا ہے، لیکن مراعات یافتہ حکمراں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘
ترکی میں فوج کی طاقت کے ناقدین کہتے ہیں کہ ملک کو فوج کے اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کے لیے جو کام ہو رہا ہے، اس کے لیے او وائے اے کے میں اصلاحا ت انتہائی اہم ہے۔
ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے بھی ایسا کرنا ضروری ہے۔ دفاعی امور کے صحافی کمال کہتے ہیں کہ’’اس حقیقت سے کہ اور وائے اے کے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں، کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا، ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کا بالا دستی کا نظام ختم کرنے اور مسلح افواج پر مکمل طور سے سویلین کنٹرول قائم کرنے کے لیے ترکی کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘
ترکی یورپی یونین میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے اور یورپی یونین کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ فوج پوری طرح سویلین کنٹرول میں ہو۔ لیکن پینشن فنڈ کے ویب پیج پر اس تنقید کو رد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے خلاف غلط اور بے سرو پا اطلاعات کی مہم چلائی جا رہی ہے ۔مبصرین کہتے ہیں کہ اب جب کہ فوج کی طاقت مسلسل کم ہو رہی ہے، امکان یہی ہے کہ او وائے اے کے میں اصلاحات کے لیے دباؤ بڑھتا رہے گا۔
ترکی میں آپ کو چاکلیٹ خریدنی ہو، انشورنس کرانا ہو یا کوئی مکان یا گاڑی لینی ہو، امکان یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس میں ’او وائے اے کے‘ کا دخل ضرور ہو گا۔ ’او وائے اے کے‘ ٹرکش آرمڈ فورسسز اسسٹنٹ اینڈ پینشن فنڈ یا ترکی کی مسلح افواج کے امدادی اور پینشن فنڈ کا نام ہے۔
فوجی امور کی ماہر اور اخبار طاراف کے انقرہ بیورو کی سربراہ لیلیٰ کمال کہتی ہیں کہ ’او وائے اے کے‘ اس دور کی باقیات ہے جب ملک پر فوج کا غلبہ تھا۔
’’یہ ایک عجیب و غریب ادارہ ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ یہ پرانے زمانے کے لاطینی امریکہ کے ملکوں یا چین یا مصر کی طرح ہے جس کا قانون کی بالا دستی یا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
لیکن ’او وائے اے کے‘ کے کاروباری معاملات کی سیاسی جانچ پڑتال شروع ہو چکی ہے۔ گذشتہ مہینے، جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے ترجمان حسین کلیک نے اعلان کیا کہ پارلیمینٹ پینشن فنڈ کے وجود اور اس کی سرگرمیوں کی تفتیش کرے گی۔
جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے دورِ حکومت میں، ملک کے جنرلوں کی کل تعداد کا پانچواں حصہ یا تو جیل میں ہے، ان پر مقدمے چلائے جا رہے ہیں، یا اقتدار پر قبضہ کرنے کی مختلف سازشوں کے الزام میں مقدموں کا انتظار کر رہا ہے۔ ملک میں جتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی چھان بین ہوئی ہے اس کے نتیجے میں فوج کو سیاست سے الگ ہونا پڑا ہے۔
لیکن استنبول کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر چنگیز اختر کہتے ہیں کہ فوج کی اقتصادی طاقت کے خلاف کارروائی کرنا انتہائی اہم ہے۔
’’فوج کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا بڑا طویل عمل ہے۔ جب تک فوج کی مالیاتی اور قانونی مراعات ختم نہیں کی جائیں گی ملک پر فوج کے غلبے کو مکمل طور سے ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
فوج کے افسروں نے جب ملک میں اقتدار پر پہلی بار قبضہ کیا تو اس کے چند مہینے بعد 1961 میں ’او وائے اے کے‘ قائم کی گئی تاکہ فوج کے تمام سپاہیوں کے لیے پنشن کا بندوبست کیا جا سکے۔
بعد کے برسوں میں اس پینشن فنڈ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ 2009 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس میں 30,000 لوگ ملازم ہیں۔ اس کے اثاثوں کی مالیت 15 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جو 60 کمپنیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سال ’او وائے ایے کے، رینلیٹ‘ پروڈکشن لائن سے چالیس لاکھویں کار تیار ہو کر نکلی۔ یہ مشترکہ کاروبار 1971 میں شروع ہوا تھا۔
اگرچہ اس کمپنی کے بورڈ اور جنرل اسمبلی پر فوج کے ریٹائرڈ سینیئر افسروں کا غلبہ ہے، لیکن ’او وائے اے کے‘ کا کہنا ہے کہ یہ مسلح افواج کا حصہ نہیں ہے ۔
ترک فوج کے تجزیہ کار گریتھ جینکنز کہتے ہیں کہ ’او وائے اے کے‘ کے معاملے میں بے اطمینانی اب نان کمیشنڈ افسروں تک پھیل گئی ہے۔ انسانی حقوق کی یورپی کورٹ، نان کمیشنڈ افسروں کی طرف سے ’او وائے اے کے‘ کے خلاف دائر کیے ہوئے ایک کیس پر غور کر رہی ہے جس میں کمپنی کے بورڈ میں نمائندگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
’’میرے خیال میں او وائے اے کے کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ریٹائرڈ جنرلوں کے لیے امپلائنٹ ایجنسی کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا ۔ جن لوگوں کو کام کرنے کے لیے او وائے اے کے کی ضرورت تھی، وہ نان کمیشنڈ افسر اور جونیئر افسر تھے۔ لیکن اسے بڑی حد تک اعلیٰ رینک کے افسروں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
او وائے اے کے چیئرمین یلدریم ترکر کو جو جیل میں ہیں، قانونی مسائل کا بھی سامنا ہے ۔ یہ وہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں جن پر 1997 میں اس کارروائی میں شرکت کا الزام ہے جس کے نتیجے میں اسلام پسندوں کی قیادت میں قائم حکومت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
تجزیہ کار جنکنز کہتے ہیں کہ فوج کی جو سیاسی اور عدالتی جانچ ہو رہی ہے، اس کے نتیجے میں او وائے اے کے میں تبدیلی کا امکان ہے۔
’’اگر یہ کمپنیاں کسی طرح آرمی پینشن فنڈ سے واپس لے لی جاتی ہیں، تو ان کے اثاثے ان لوگوں کو منتقل ہو جائیں گے جو حکمراں پارٹی کے نزدیک ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں میں ہم نے ترکی میں یہ دیکھا ہے کہ نظام ویسا ہی رہتا ہے، لیکن مراعات یافتہ حکمراں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘
ترکی میں فوج کی طاقت کے ناقدین کہتے ہیں کہ ملک کو فوج کے اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کے لیے جو کام ہو رہا ہے، اس کے لیے او وائے اے کے میں اصلاحا ت انتہائی اہم ہے۔
ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے بھی ایسا کرنا ضروری ہے۔ دفاعی امور کے صحافی کمال کہتے ہیں کہ’’اس حقیقت سے کہ اور وائے اے کے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں، کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا، ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کا بالا دستی کا نظام ختم کرنے اور مسلح افواج پر مکمل طور سے سویلین کنٹرول قائم کرنے کے لیے ترکی کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘
ترکی یورپی یونین میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے اور یورپی یونین کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ فوج پوری طرح سویلین کنٹرول میں ہو۔ لیکن پینشن فنڈ کے ویب پیج پر اس تنقید کو رد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے خلاف غلط اور بے سرو پا اطلاعات کی مہم چلائی جا رہی ہے ۔مبصرین کہتے ہیں کہ اب جب کہ فوج کی طاقت مسلسل کم ہو رہی ہے، امکان یہی ہے کہ او وائے اے کے میں اصلاحات کے لیے دباؤ بڑھتا رہے گا۔