وسطی مغربی امریکہ کے شہر ڈٹرائٹ کے للوک گلوکار روڈریگیز نے 70 کی دہائی میں دو البم بنائے۔، مگر جب کسی نے دھیان نہ دیا اور وہ معمول کی زندگی میں مگن ہو گئے۔
چالیس سال قبل ایک امریکی نغمہ نگار اور گلوکار کو اپنے وطن میں پذیرائی نہ مل سکی مگر وہ جنوبی افریقہ میں بہت مقبول ہوا۔ مگر اس کا علم اسے کئی عشروں بعد ہوا۔
سوٍیڈش فلمساز کی بنائی ہوئی ایک نئی ڈاکومنٹری ’سرچنگ فار شوگر مین‘ اس گلوکار کی حیرت انگیز کہانی بیان کرتی ہے۔
کیپ ٹاؤن میں ایک ریکارڈ سٹور کے مالک سٹیفن سیگرمین نے کہا، ’’یہ بات ابھی تک ایک معمہ ہے کہ ان کے ریکارڈ ’کولڈ فیکٹ‘ کی پہلی کاپی جنوبی افریقہ کیسے پہنچی، مگر یہ ایک دم بہت مقبول ہو گیا۔ بہت سے جنوبی افریقیوں کیلئے یہ ہماری زندگی کا بہترین ساؤنڈ ٹریک تھا۔‘‘
یہ ساؤنڈٹریک تھا وسطی مغربی امریکہ کے شہر ڈٹرائٹ کے فوک گلوکار روڈریگیز کا جنہوں نے ستر کی دہائی میں ایک دو البم بنائے۔ مگر جب ان کو پذیرائی نہ ملی تو وہ معمول کی زندگی میں مگن ہو گئے۔
مگر ان کی موسیقی نے خود ہی سمندر پار اپنی جگہ بنا لی۔ جب سٹاک ہوم سے دلچسپ کہانیوں کی کھوج میں جنوبی افریقہ آنے والے ایک فلمساز ملک بنجیلول کو سٹیفن سیگرمین سے اس کہانی کا پتا چلا وہ بہت متاثر ہوئے ۔ ’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ وہ مشہور ہے۔‘‘
سیگرمین نے بتایا، ’’70 کی دہائی میں اگر آپ کسی بھی لبرل، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فام گھرانے میں داخل ہوتے جہاں گراموفون موجود ہوتا تو آپ کو وہاں بیٹلز کا ’ایبی روڈ‘، سائمن اینڈ گارفنکل کا ’برجز اوور ٹربلڈ واٹرز‘ اور روڈریگیزکا ’کولڈ فیکٹ‘ ضرور ملتا۔ ہمارے لئے تو یہ ہر زمانے کے سب سے مشہورریکارڈز میں سے ایک تھا۔ اس کا پیغام تھا ہیئتِ مقتدرہ کے خلاف بغاوت۔ اس کے ایک نغمے کا نام ہے’دی اینٹی اسٹیبلشٹمنٹ بلوز‘۔ یہ نغمہ سننے سے پہلے ہمیں اس لفظ کے بارے میں پتا بھی نہیں تھا۔ ہمیں اسے سن کر احساس ہوا کہ اپنے معاشرے سے بغاوت کرنا یا اس سے ناراض ہونا بری بات نہیں۔‘‘
مگر روڈریگیز کی ذات معمہ ہی رہی۔ یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ انہوں نے خود کشی کر لی تھی۔
سیگرمین اور اس کے ایک صحافی دوست نے ان کی اصل کہانی کی کھوج شروع کی۔
ان کی تلاش انہیں ڈیٹرائٹ کے ایک شکستہ حال علاقے میں لے گئی جہاں ان کی اپنے ہیرو سے ملاقات ہوئی جوزندہ سلامت مگر اپنی شہرت اور اپنے میوزک کے اثرات سے بالکل ناواقف تھے۔
سوٍیڈش فلمساز کی بنائی ہوئی ایک نئی ڈاکومنٹری ’سرچنگ فار شوگر مین‘ اس گلوکار کی حیرت انگیز کہانی بیان کرتی ہے۔
کیپ ٹاؤن میں ایک ریکارڈ سٹور کے مالک سٹیفن سیگرمین نے کہا، ’’یہ بات ابھی تک ایک معمہ ہے کہ ان کے ریکارڈ ’کولڈ فیکٹ‘ کی پہلی کاپی جنوبی افریقہ کیسے پہنچی، مگر یہ ایک دم بہت مقبول ہو گیا۔ بہت سے جنوبی افریقیوں کیلئے یہ ہماری زندگی کا بہترین ساؤنڈ ٹریک تھا۔‘‘
یہ ساؤنڈٹریک تھا وسطی مغربی امریکہ کے شہر ڈٹرائٹ کے فوک گلوکار روڈریگیز کا جنہوں نے ستر کی دہائی میں ایک دو البم بنائے۔ مگر جب ان کو پذیرائی نہ ملی تو وہ معمول کی زندگی میں مگن ہو گئے۔
مگر ان کی موسیقی نے خود ہی سمندر پار اپنی جگہ بنا لی۔ جب سٹاک ہوم سے دلچسپ کہانیوں کی کھوج میں جنوبی افریقہ آنے والے ایک فلمساز ملک بنجیلول کو سٹیفن سیگرمین سے اس کہانی کا پتا چلا وہ بہت متاثر ہوئے ۔ ’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ وہ مشہور ہے۔‘‘
سیگرمین نے بتایا، ’’70 کی دہائی میں اگر آپ کسی بھی لبرل، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فام گھرانے میں داخل ہوتے جہاں گراموفون موجود ہوتا تو آپ کو وہاں بیٹلز کا ’ایبی روڈ‘، سائمن اینڈ گارفنکل کا ’برجز اوور ٹربلڈ واٹرز‘ اور روڈریگیزکا ’کولڈ فیکٹ‘ ضرور ملتا۔ ہمارے لئے تو یہ ہر زمانے کے سب سے مشہورریکارڈز میں سے ایک تھا۔ اس کا پیغام تھا ہیئتِ مقتدرہ کے خلاف بغاوت۔ اس کے ایک نغمے کا نام ہے’دی اینٹی اسٹیبلشٹمنٹ بلوز‘۔ یہ نغمہ سننے سے پہلے ہمیں اس لفظ کے بارے میں پتا بھی نہیں تھا۔ ہمیں اسے سن کر احساس ہوا کہ اپنے معاشرے سے بغاوت کرنا یا اس سے ناراض ہونا بری بات نہیں۔‘‘
مگر روڈریگیز کی ذات معمہ ہی رہی۔ یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ انہوں نے خود کشی کر لی تھی۔
سیگرمین اور اس کے ایک صحافی دوست نے ان کی اصل کہانی کی کھوج شروع کی۔
ان کی تلاش انہیں ڈیٹرائٹ کے ایک شکستہ حال علاقے میں لے گئی جہاں ان کی اپنے ہیرو سے ملاقات ہوئی جوزندہ سلامت مگر اپنی شہرت اور اپنے میوزک کے اثرات سے بالکل ناواقف تھے۔
روڈریگیز اس بات کیلئے شکرگزار ہیں کہ ان کے میوزک کو پسند کرنے والے ملے۔
’’سرچنگ فار شوگر مین‘‘میں روڈریگیز کی پہلی مرتبہ 1998 میں کیپ ٹاؤن آمد کے بعد کانسرٹ کے سین بھی موجود ہیں۔ تب سے اب تک وہ کئی مرتبہ جنوبی افریقہ آ چکے ہیں۔ وہ نئی موسیقی ریکارڈ کروا رہے ہیں اور اب بھی ان کا پیغام معاشرتی مسائل کے متعلق ہی ہے۔
اس ڈاکومنٹری کو 2012 میں سنڈیس فیسٹیول میں سپیشل گرینڈ جیوری پرائز ملا ہے۔
روڈریگیز اس بات کیلئے شکرگزار ہیں کہ ان کے میوزک کو پسند کرنے والے ملے۔
’’سرچنگ فار شوگر مین‘‘میں روڈریگیز کی پہلی مرتبہ 1998 میں کیپ ٹاؤن آمد کے بعد کانسرٹ کے سین بھی موجود ہیں۔ تب سے اب تک وہ کئی مرتبہ جنوبی افریقہ آ چکے ہیں۔ وہ نئی موسیقی ریکارڈ کروا رہے ہیں اور اب بھی ان کا پیغام معاشرتی مسائل کے متعلق ہی ہے۔
اس ڈاکومنٹری کو 2012 میں سنڈیس فیسٹیول میں سپیشل گرینڈ جیوری پرائز ملا ہے۔