دہشت گردوں کے لیے پاکستانی حصے بدستور ’محفوظ پناہ گاہ‘

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں ان کوششوں کا بھی ذکر تھا جو پاکستانی حکومت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف گزشتہ ایک برس میں کی ہیں۔
ایک نئی امریکی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان اگرچہ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جدوجہد میں ایک اہم ساتھی ہے لیکن لشکر طیبہ جیسے گروہوں کے خلاف خاطر خواہ تعاون فراہم نہیں کر رہی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہیں ابھی بھی باقی ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے منگل کو دہشت گردی کی عالمی صورتحال پر جاری ہونے والی رپورٹ میں القاعدہ کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے باوجود ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور حقّانی نیٹ ورک جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ گروہ القاعدہ کو امداد اور وسائل بھی فراہم کر رہے ہیں۔

لشکرِ طیبہ کے بانی رہنما حافظ محمد سعید


پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدّت پسند اور انتہا پسند گروہوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں سے افغان طالبان، لشکر طیبہ اور حقّانی نیٹ ورک خطّے کے دیگر ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ تحریک طالبان پاکستان، پاکستان کے اندر کے اہداف کو نشانہ بناتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انتہا پسندوں نے خود پاکستان کے اندر بھی ایسے لوگوں کے خلاف محاذ کھول تھا جو ملک کے قوانین، خصوصًا توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ان میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کا خصوصًا ذکر کیا گیا۔

دہشت گردی کے خلاف پاکستانی تعاون:

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستانی فوج نے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیا ہے لیکن دیگر گروہوں جیسے حقّانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف پُر زور کاروائی نہیں کی۔ جبکہ پاکستان کی پارلیمان، سپریم کورٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجّہ گزشتہ برس کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں سیاسی اور فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی طرف مبذول رہی ہے۔

اتحادی افواج کے اہلکار سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے زخمی ہونے والے ساتھی کی مدد کرتے ہوئے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں استعمال ہونے والے سب سے مہلک ہتھیار یعنی آئی ای ڈیز (گھریلو ساختہ بم) کی تیّاری میں استعمال ہونے والا مواد، جیسے کیلشیئم امونئیم نائیٹریٹ کھاد اور پوٹاشیئم کلوریٹ، بھی پاکستان سے غیر قانونی طور پرجاتا ہے۔

اس کے علاوہ ملک کے وزیر اعظم کی اپیلوں کے باوجود ملک میں دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مضبوط نہیں بنایا گیا اور ملک میں دہشت گردی کے مقدّمات میں ملوث افراد کے چھوٹ جانے کی شرح رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ، یعنی 85 فیصد ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ایسی تنظیمیں جنہیں اقوام متحدہ نے کالعدم قرار دیا ہے، پاکستان میں نئے ناموں سے سرگرم ہیں اور مالی وسائل تک بھی رسائی حاصل کر رہی ہیں۔

دوسری طرف رپورٹ میں ان کوششوں کا بھی ذکر تھا جو پاکستانی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف یا انتہا پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گزشتہ ایک برس میں کی ہیں۔ مثلًا کچھ ایسے نئے قوانین کا نفاذ جن کے تحت پاکستانی کی سیکورٹی فورسز حالت جنگ میں افراد کو حراست میں لے سکتی ہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ان قوانین پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو اعتراض ہیں۔

کرم ایجنسی میں تعینات پاکستانی سرحدی محافذ (فائل فوٹو)

کرّم، مہمند، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی کاروائیوں کو اہم قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں ہزاروں جنگجوؤں کو زیر حراست لیا گیا تھا۔ جبکہ کئی اہم مبیّنہ دہشت گردوں کی حراست کو بھی نمایاں کیا گیاہے۔

انتہا پسندی کے خلاف اقدامات:

رپورٹ کے مطابق پاکستان نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے کی کئی کوششیں کی ہیں، مثلًا افغانستان اور ترکی کے ساتھ علاقائی معاہدوں پر دستخط اور وزارت اطلاعات کی طرف سے عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے پروگرام وغیرہ ۔

افغانستان:

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 2014 میں نیٹو کی افواج کی واپسی کی خبر کے بعد حملے زیادہ پر زور ہو گئے ہیں ۔ جنوری سے نومبر 2011 تک صرف کابل میں پچاس حملے ہوئے تھے، جبکہ مزید حملے افغان اور آئی سیف فورسز نے ناکام بنا دیے تھے۔ افغانستان میں زیادہ تر ہلاکتیں آئی ای ڈیز یعنی گھریلو ساخت کے بموں سے ہو رہی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر ملکی افواج پر منظّم حملوں کے علاوہ ایسے ہوٹلوں اور عمارات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جہاں مغربی ممالک کے شہریوں کا آنا جانا رہتا تھا۔

برہان الدین ربانی


اس کے باوجود رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس امن جرگے کے سربراہ اور سابق افغان صدر برہان الدّین ربّانی کی ہلاکت کے بعد حکومتِ افغانستان نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے دہشت گردوں کے لیے مستقبل میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں انتخابات کے متنازعہ ہونے سے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو نقصان پہنچا کیونکہ پارلیمان ایسے تعطّل کا شکار رہی کہ دہشت گردی کے خلاف کوئی قانون پاس نہ کر سکی۔ جبکہ ملک میں دہشت گردوں کے مالی وسائل پر پابندی کی کوششوں کے بارے میں بھی اس رپورٹ میں تحفّظات کا اظہار کیا گیا ہے۔