برطانوی حکومت نے یونین ممالک کے طالب علموں کے داخلے کا اجازت نامہ منسوخ کردیا ہے اور ساتھ ہی میٹروپولیٹن یونیورسٹی لندن نےموجودہ غیر یورپی طالب علموں کو تدریس سے روک دیا ہے، جِس سے نہ صرف اُن کا مستقبل خطرے میں ہے، بلکہ ملک بدری کا بھی خدشہ ہے
بدھ کی رات برطانوی سرحدی بارڈر ایجنسی نےمیٹروپولیٹن یونیورسٹی لندن کا غیر یورپی ممالک کے طالب علموں کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کردیا ہے۔
سنہ 2002میں قائم ہونے والی میٹروپولیٹن یونیورسٹی لندن شہر کے وسط میں واقع ایک انتہائی قابل اعتماد تعلیمی ارادے کی حیثیت رکھتی ہے۔
’وی او اے‘ کی طرف سے یونیورسٹی سے رابطہ کرنے پر انتظامیہ نے اپنے غیر ملکی طالب علموں کے داخلےکے اجازت نامے کے منسوخ ہونے کی تصدیق کی اور مزید بتایا کہ اس وقت یہاں 2600بین الاقوامی طالب علم زیرِ تعلیم ہیں، جِن کا تدریشی عمل رُک گیا ہے۔
یاد رہے کہ 30000سے زائد غیر یورپی ممالک کے طالب علم اس وقت شدید مشکلات میں گھرےہوئے ہیں، کیونکہ ایک طرف تو اُن کی پڑھائی روک دی گئی ہے تو دوسری طرف اُنھیں 60 دن کے اندر اندر اپنے لیے برطانیہ کی کسی متبادل یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو گا ، اور ہزاروں پاؤنڈ فیس کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔
ساتھ ہی، اُن سب طلبا کی پڑھائی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے جو ستمبر سے شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال میں تدریس کی غرض سے اپنے اپنے ملکوں سےلندن پہنچنے والے ہیں۔
وہ طالب علم جو اس وقت انڈر گریجویشن کے دوسرے اور تیسرے سال میں پڑھائی کر رہے ہیں،اُنھیں اپنا کورس جاری رکھنے کے لیے نئے تعلیمی ادارے میں اپنا کورس ٹرانسفر کرنا ہو گا۔
برطانیہ جسے دنیا بھر کے طالب علموں کا گھر سمجھا جاتا ہے اُسے اِس وقت تنقید کا سامنا ہے۔
پروفیسر ایرک تھامس، جو برطانوی یونیورسٹی کے سربراہ ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ سرحدی بارڈر ایجنسی کے خدشات کو دور کرنے کا کوئی متبادل طریقہ ہو سکتا تھا۔
یونیورسٹی کا لا ئسنس صرف اور صرف اس صورت میں منسوخ کیا جاتا ہے جب کہ ایسا کرنا نا گزیر ہو۔
ٹیچرز اور لیکچرارز ایسوسی ایشن نے بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس فیصلے کے بعد ڈاکٹرز، ٹیچرز اور سائنسدانوں کے لیے برطانیہ پُر کشش جگہ نہیں رہے گی، کیونکہ، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دنیا کو کوئی اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ دراصل، پیغام یہ جائے گا کہ غیر ملکی طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔
سنہ 2002میں قائم ہونے والی میٹروپولیٹن یونیورسٹی لندن شہر کے وسط میں واقع ایک انتہائی قابل اعتماد تعلیمی ارادے کی حیثیت رکھتی ہے۔
’وی او اے‘ کی طرف سے یونیورسٹی سے رابطہ کرنے پر انتظامیہ نے اپنے غیر ملکی طالب علموں کے داخلےکے اجازت نامے کے منسوخ ہونے کی تصدیق کی اور مزید بتایا کہ اس وقت یہاں 2600بین الاقوامی طالب علم زیرِ تعلیم ہیں، جِن کا تدریشی عمل رُک گیا ہے۔
یاد رہے کہ 30000سے زائد غیر یورپی ممالک کے طالب علم اس وقت شدید مشکلات میں گھرےہوئے ہیں، کیونکہ ایک طرف تو اُن کی پڑھائی روک دی گئی ہے تو دوسری طرف اُنھیں 60 دن کے اندر اندر اپنے لیے برطانیہ کی کسی متبادل یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو گا ، اور ہزاروں پاؤنڈ فیس کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔
ساتھ ہی، اُن سب طلبا کی پڑھائی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے جو ستمبر سے شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال میں تدریس کی غرض سے اپنے اپنے ملکوں سےلندن پہنچنے والے ہیں۔
وہ طالب علم جو اس وقت انڈر گریجویشن کے دوسرے اور تیسرے سال میں پڑھائی کر رہے ہیں،اُنھیں اپنا کورس جاری رکھنے کے لیے نئے تعلیمی ادارے میں اپنا کورس ٹرانسفر کرنا ہو گا۔
برطانیہ جسے دنیا بھر کے طالب علموں کا گھر سمجھا جاتا ہے اُسے اِس وقت تنقید کا سامنا ہے۔
پروفیسر ایرک تھامس، جو برطانوی یونیورسٹی کے سربراہ ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ سرحدی بارڈر ایجنسی کے خدشات کو دور کرنے کا کوئی متبادل طریقہ ہو سکتا تھا۔
یونیورسٹی کا لا ئسنس صرف اور صرف اس صورت میں منسوخ کیا جاتا ہے جب کہ ایسا کرنا نا گزیر ہو۔
ٹیچرز اور لیکچرارز ایسوسی ایشن نے بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس فیصلے کے بعد ڈاکٹرز، ٹیچرز اور سائنسدانوں کے لیے برطانیہ پُر کشش جگہ نہیں رہے گی، کیونکہ، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دنیا کو کوئی اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ دراصل، پیغام یہ جائے گا کہ غیر ملکی طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔