ہمارے آپ میں سے کتنے ہی لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔لیکن کیا آپ کبھی کسی ایسے ڈاکٹر سے ملے ہیں ، جس نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد معیشت اور ترقی کا میدان اعلی تعلیم کے لئےمنتخب کیا ہو۔ ؟ حال ہی میں ہم نے امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں ملاقات کی ایسے ہی ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ۔۔۔نام ہے ان کا ولید ظفر ، اور یہ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ سے فل برائٹ سکالر شپ پرپی ایچ ڈی پبلک ہیلتھ مکمل کرچکے ہیں۔
لاہورکے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور پھر یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)سے ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں ماسٹرز کرنے والے ولید ظفر کہتے ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر اگست 2007 میں پبلک ہیلتھ میں ایک اور ماسٹرز کرنے کے لئے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی بوسٹن پہنچے تھے ۔
“بوسٹن ایک ٹھنڈا شہر ہے ۔ وہاں کی سردی میں رہنا سٹوڈنٹس کے لئے ایک نیا تجربہ ہوتا ہے خاص طور پر اگر انہیں اپنے رہنے کا انتظام خود کرنا پڑے ۔ وہاں پر گیس کا بل بھی کافی زیادہ آتا ہے ۔ظاہر ہے ، اس کے ساتھ ڈیل کرنا تھوڑا سا چیلنج ہوتا ہے ، لیکن یہ ایک آسان ٹرانزیشن تھی ۔ یونیورسٹی نے بہت ہیلپ کی ۔ فل برائٹ سکالر شپ کا اپنا ایک اورینٹیشن کا پروگرام ہے ۔۔ اس کے بعد بھی وہ سٹوڈنٹس سے ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں اور انہیں راہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔
‘
فل برائٹ پر امریکہ میں ماسٹرز کے اخراجات پاکستان کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن ادا کرتا ہے۔
ولید ظفر کہتے ہیں کہ فل برائٹ کا یہ پروگرام ہائیر ایجو کیشن کمیشن آف پاکستان اور یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ
یو ایس ایڈ کا مشترکہ پروگرام ہے۔ اس فل برائٹ پروگرام پر زیادہ تر تعلیمی اخراجات پاکستان کی ہائیر ایجو کیشن کمیشن ادا کر رہی ہے ، پاکستان سے امریکہ آنے کے بعد ماسٹرز کرنے پر جو اخراجات آتے ہیں ، وہ پاکستان کا ہائیر ایجو کیشن کمیشن فل برائٹ پروگرام کے تحت ادا کرتا ہے ۔ ایک دفعہ جب امریکہ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو جائے تو کئی طالب علموں کو پی ایچ ڈی کا ورسٹی سکالر شپ ملتا ہے ، جوانہیں بھی مل رہا ہے۔
بچوں کے ذہنی مسائل کی تشخیص اور علاج ڈاکٹر ولید ظفر کی پی ایچ ڈی ریسرچ کا خاص موضوع ہے۔
ولید ظفر کی پی ایچ ڈی ریسرچ کا خاص موضوع پرائمری کئیر کے شعبے میں بچوں کے ذہنی مسائل کی تشخیص اور علاج میں مدد کے طریقے تلاش کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پرائمری کئیر سے مراد وہ عام سطح کی کلینکل میڈیسن کا شعبہ ہے ، جس میں پہلے درجے پر لوگ کسی مرض کے علاج کے لئے سیدھے کسی سپیشلسٹ کے پاس نہیں ،بلکہ جنرل پریکٹشنر کے پاس جاتے ہیں اور جنرل پریکٹشنر پھر حسب ضرورت مریض کو کسی سپیشلسٹ کے پاس ریفر کرتا ہے ۔ بہت سے طبی مسائل ،جن میں ذہنی صحت کے مسائل بھی ہیں، ان کا علاج اور ان سے نمٹنا پرائمری کئیر کی سطح پر ہوتا ہے ۔ ان کی دلچسپی کا سوال یہ ہے کہ کیسے اس پرائمری کئیرکی سطح پر بچوں کے ذہنی مسائل کی تشخیص اور علاج کی کوشش کی جائے۔
ولید کہتے ہیں کہ ایسے بچوں کے علاج کے لئے کچھ خاص قسم کی مدد کے طریقے ہیں، جوماہرین پرائمری کئیر فزیشنز کے لئےڈیزائن کر سکتے ہیں ، اس سے بہتر طور پر بچوں کے ذہنی امراض کی تشخیص اور علاج میں مدد مل سکتی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پرائمری ڈاکٹر ذہنی صحت کے سپیشلسٹ بن جائیں گے لیکن کم از کم ایسے افراد کی مدد ضرور کر سکیں گے، جنہیں کسی سپیشلسٹ کی ضرورت نہیں ۔اس طرح وسائل درست طریقے سے استعمال ہونگے ۔کیونکہ سپیشلسٹ یا تو مہنگے ہوتے ہیں یا ہر علاقے میں موجود نہیں ہوتے۔
ولید ظفر پاکستان میں پرائمری ہیلتھ کئیر یاابتدائی صحت کے نظام کی ابتدائی مرحلے میں درستگی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ، اور واپس پاکستان جا کر اسی شعبے کی بہتری کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پرائمری کئیر کے شعبے میں صرف ڈاکٹر ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ تربیت یافتہ نرسز اورفزیشن کا معاون عملہ بھی شامل ہوتا ہے ، اس لئے، “پاکستان میں پرائمری کئیر کو مضبوط کرنے کے لئے فزیشنز کے علاوہ نان فزیشنز کو بھی ٹرینڈ کرنے کی ضرورت ہے ۔”
امریکی تعلیمی نظام ،طلباء کی قابلیت کا درست اندازہ لگانے میں کامیاب رہتا ہے۔
ولید ظفر کہتے ہیں کہ گریجویٹ سطح کے ٹیسٹ جیسے جی آر اے ، ایس اے ٹی اور جی میٹ ، میں کارکردگی کے علاوہ سب سے اہم چیز جس سے امریکی تعلیمی اداروں میں طلباء کی اہلیت جانچی جاتی ہے ، وہ ہے ان کی لکھنے کی صلاحیت ۔طالب علم کے پرسنل اسٹیٹمنٹ سے ، جس میں طالب علم اپنے بارے میں اوراپنے تعلیم حاصل کرنے کے مقاصد کے بارے میں لکھتا ہے ، اس کا اندازہ ہوتا ہے ۔اساتذہ کے ریکومنڈیشن لیٹرز بھی طالب علم کی صلاحیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ پیش کرتے ہیں۔
“اس کا فائدہ یہ ہو تا ہے ، کہ جب اچھی امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملتا ہے تو انہوں نے یہ اندازہ پہلے ہی لگا لیا ہوتا ہے ، کہ جو آپ پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اس سے آپ کو فائدہ بھی ہوگا اور آپ اس میں کوئی دشواری محسوس نہیں کریں گے ۔”
ولیدظفر کہتے ہیں کہ امریکی تعلیمی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہاں مختلف ثقافتوں اور سماجی اور معاشرتی پس منظر کے حامل افراد آئیں اور ان کے لئے ہر ممکن سہولت پیدا کی جائے ۔۔اگر طالب علم امریکی شہری ہیں تو انہیں کم شرح سود پر سٹوڈنٹ لونز ملتے ہیں ۔اگر انٹرنیشنل سٹوڈنٹ ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو ہر ممکن مدد اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں ۔ولید کہتے ہیں کہ امریکہ اپنی فلموں ، میوزک اور انگریزی زبان کی وجہ سے بیرون ملک سے یہاں آکر پڑھنے والوں کے لئے اتنا اجنبی نہیں ، جتنا کوئی اور ملک ہو سکتا ہے۔
“لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشکل چیزیں نہیں ہوتیں ۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں کام کا انداز مختلف ہوتا ہے ۔نئے آنے والے طالب علموں کے لئے بینکوں کے ساتھ ڈیل کرنا ، فون کمپنیوں سے نیا فون حاصل کرنا ، جس کے لئے دو سال کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے ۔۔سب ایک نیا تجربہ ہوتا ہے ۔ لیکن نظام کو سمجھنے میں اتنا وقت نہیں لگتا ، اصل مشکل انہیں اپنے خاندان سے دور رہ کر پڑھائی پر توجہ دینے میں ہوتی ہے“۔
“ولیدظفر کے پاس انسانی رویوں اور ذہنی صحت کے بارے میں کثیر الثقافتی نظریہ ہے ۔ “
ڈاکٹر ولید ظفر کے پی ایچ ڈی ایڈوائزراور بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ کے ہیلتھ بی ہیوئیر اینڈ سوسائٹی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر لیری وسو ، جو خودبھی ایک ماہر اطفال اور چائلڈ سائیکولوجسٹ ہیں ، اپنے پاکستانی پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ ولید ظفر کی ذہانت، تربیت اور اکنامکس اور میڈیسن کے تعلیمی پس منظر کے زبردست معترف ہیں۔
لیری کہتے ہیں کہ “ولیدجس ملک سے آئے ہیں ، اس کے بہترین سفیر ہیں ۔ میں انہیں صرف پاکستانی طالبعلم کے طور پر نہیں دیکھتا ۔ویسے تو یہاں ہماری ایک بہت متنوع سٹوڈنٹ باڈی ہے ۔لیکن کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ مجھے ایک امریکن ایڈوائزر سمجھتا ہے یا صرف ایک ایڈوائزر ۔ لیکن وہ خود کسی بھی جگہ کے لئے ایک اچھا ایڈوائزر ثابت ہوگا ۔ وہ بہت ذہین ، بہت قابل اعتبار اور بہت اچھا کام کرنے والا ہے ۔ زبردست تجربہ ، گہری نظر اور بےحد پختگی کا مالک ۔۔میں تو کہوں گا کہ کاش ہم اس کی کلوننگ کر سکتے ۔ مجھے افسوس ہوگا جب ولیدامریکہ سے واپس پاکستان جائے گا ۔
”
لیری کہتے ہیں کہ ولید ظفر کے پاس انسانی رویے اور ذہنی صحت کے بارے میں ایک کثیر الثقافتی نظریہ ہے جو آج کے زمانے میں بے حد اہم ہو چکا ہے ۔ یہی سمجھ بوجھ وہ پاکستان واپس لے کر جائے گا ۔ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے ، لیکن کئی حوالوں سے یہ ایک یکساں اور کم متنوع ملک بھی ہے ۔ اس لئے ہم بیرون ملک سے یہاں آنے والوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔
ولید نے بڑے بڑے ڈیٹا سیٹس ،اور اعداد و شمار جمع کرنے والے پراجیکٹس پرمیرے ساتھ کام کیا ہے ، وہ جو تحقیق کرتا رہا ہے اسے ہم کہتے ہیں کوالیٹیٹو یا معیاری ریسرچ ، جس میں لوگوں کے انٹرویو کرنا ، ان پر غور و خوذ کرنا اور یہ مقابلہ کرناشامل ہوتا ہے کہ ایک کیس کا دوسرے سے کیا تعلق ہے ۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جوان تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو اتنا ااچھا استعمال کر سکیں ۔میرے خیال میں جب ولید پاکستان جا کر کام کرنے لگیں گے تو ایک ایسے لیڈر ثابت ہونگے جو لوگوں کو کچھ نہ کچھ سکھا سکے گا اورشعبہ صحت میں ہر ممکن مدد کر سکے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
لاہورکے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور پھر یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)سے ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں ماسٹرز کرنے والے ولید ظفر کہتے ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر اگست 2007 میں پبلک ہیلتھ میں ایک اور ماسٹرز کرنے کے لئے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی بوسٹن پہنچے تھے ۔
“بوسٹن ایک ٹھنڈا شہر ہے ۔ وہاں کی سردی میں رہنا سٹوڈنٹس کے لئے ایک نیا تجربہ ہوتا ہے خاص طور پر اگر انہیں اپنے رہنے کا انتظام خود کرنا پڑے ۔ وہاں پر گیس کا بل بھی کافی زیادہ آتا ہے ۔ظاہر ہے ، اس کے ساتھ ڈیل کرنا تھوڑا سا چیلنج ہوتا ہے ، لیکن یہ ایک آسان ٹرانزیشن تھی ۔ یونیورسٹی نے بہت ہیلپ کی ۔ فل برائٹ سکالر شپ کا اپنا ایک اورینٹیشن کا پروگرام ہے ۔۔ اس کے بعد بھی وہ سٹوڈنٹس سے ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں اور انہیں راہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔
‘
فل برائٹ پر امریکہ میں ماسٹرز کے اخراجات پاکستان کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن ادا کرتا ہے۔
ولید ظفر کہتے ہیں کہ فل برائٹ کا یہ پروگرام ہائیر ایجو کیشن کمیشن آف پاکستان اور یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ
یو ایس ایڈ کا مشترکہ پروگرام ہے۔ اس فل برائٹ پروگرام پر زیادہ تر تعلیمی اخراجات پاکستان کی ہائیر ایجو کیشن کمیشن ادا کر رہی ہے ، پاکستان سے امریکہ آنے کے بعد ماسٹرز کرنے پر جو اخراجات آتے ہیں ، وہ پاکستان کا ہائیر ایجو کیشن کمیشن فل برائٹ پروگرام کے تحت ادا کرتا ہے ۔ ایک دفعہ جب امریکہ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو جائے تو کئی طالب علموں کو پی ایچ ڈی کا ورسٹی سکالر شپ ملتا ہے ، جوانہیں بھی مل رہا ہے۔
بچوں کے ذہنی مسائل کی تشخیص اور علاج ڈاکٹر ولید ظفر کی پی ایچ ڈی ریسرچ کا خاص موضوع ہے۔
ولید ظفر کی پی ایچ ڈی ریسرچ کا خاص موضوع پرائمری کئیر کے شعبے میں بچوں کے ذہنی مسائل کی تشخیص اور علاج میں مدد کے طریقے تلاش کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پرائمری کئیر سے مراد وہ عام سطح کی کلینکل میڈیسن کا شعبہ ہے ، جس میں پہلے درجے پر لوگ کسی مرض کے علاج کے لئے سیدھے کسی سپیشلسٹ کے پاس نہیں ،بلکہ جنرل پریکٹشنر کے پاس جاتے ہیں اور جنرل پریکٹشنر پھر حسب ضرورت مریض کو کسی سپیشلسٹ کے پاس ریفر کرتا ہے ۔ بہت سے طبی مسائل ،جن میں ذہنی صحت کے مسائل بھی ہیں، ان کا علاج اور ان سے نمٹنا پرائمری کئیر کی سطح پر ہوتا ہے ۔ ان کی دلچسپی کا سوال یہ ہے کہ کیسے اس پرائمری کئیرکی سطح پر بچوں کے ذہنی مسائل کی تشخیص اور علاج کی کوشش کی جائے۔
ولید کہتے ہیں کہ ایسے بچوں کے علاج کے لئے کچھ خاص قسم کی مدد کے طریقے ہیں، جوماہرین پرائمری کئیر فزیشنز کے لئےڈیزائن کر سکتے ہیں ، اس سے بہتر طور پر بچوں کے ذہنی امراض کی تشخیص اور علاج میں مدد مل سکتی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پرائمری ڈاکٹر ذہنی صحت کے سپیشلسٹ بن جائیں گے لیکن کم از کم ایسے افراد کی مدد ضرور کر سکیں گے، جنہیں کسی سپیشلسٹ کی ضرورت نہیں ۔اس طرح وسائل درست طریقے سے استعمال ہونگے ۔کیونکہ سپیشلسٹ یا تو مہنگے ہوتے ہیں یا ہر علاقے میں موجود نہیں ہوتے۔
ولید ظفر پاکستان میں پرائمری ہیلتھ کئیر یاابتدائی صحت کے نظام کی ابتدائی مرحلے میں درستگی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ، اور واپس پاکستان جا کر اسی شعبے کی بہتری کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پرائمری کئیر کے شعبے میں صرف ڈاکٹر ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ تربیت یافتہ نرسز اورفزیشن کا معاون عملہ بھی شامل ہوتا ہے ، اس لئے، “پاکستان میں پرائمری کئیر کو مضبوط کرنے کے لئے فزیشنز کے علاوہ نان فزیشنز کو بھی ٹرینڈ کرنے کی ضرورت ہے ۔”
امریکی تعلیمی نظام ،طلباء کی قابلیت کا درست اندازہ لگانے میں کامیاب رہتا ہے۔
ولید ظفر کہتے ہیں کہ گریجویٹ سطح کے ٹیسٹ جیسے جی آر اے ، ایس اے ٹی اور جی میٹ ، میں کارکردگی کے علاوہ سب سے اہم چیز جس سے امریکی تعلیمی اداروں میں طلباء کی اہلیت جانچی جاتی ہے ، وہ ہے ان کی لکھنے کی صلاحیت ۔طالب علم کے پرسنل اسٹیٹمنٹ سے ، جس میں طالب علم اپنے بارے میں اوراپنے تعلیم حاصل کرنے کے مقاصد کے بارے میں لکھتا ہے ، اس کا اندازہ ہوتا ہے ۔اساتذہ کے ریکومنڈیشن لیٹرز بھی طالب علم کی صلاحیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ پیش کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
“اس کا فائدہ یہ ہو تا ہے ، کہ جب اچھی امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملتا ہے تو انہوں نے یہ اندازہ پہلے ہی لگا لیا ہوتا ہے ، کہ جو آپ پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اس سے آپ کو فائدہ بھی ہوگا اور آپ اس میں کوئی دشواری محسوس نہیں کریں گے ۔”
ولیدظفر کہتے ہیں کہ امریکی تعلیمی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہاں مختلف ثقافتوں اور سماجی اور معاشرتی پس منظر کے حامل افراد آئیں اور ان کے لئے ہر ممکن سہولت پیدا کی جائے ۔۔اگر طالب علم امریکی شہری ہیں تو انہیں کم شرح سود پر سٹوڈنٹ لونز ملتے ہیں ۔اگر انٹرنیشنل سٹوڈنٹ ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو ہر ممکن مدد اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں ۔ولید کہتے ہیں کہ امریکہ اپنی فلموں ، میوزک اور انگریزی زبان کی وجہ سے بیرون ملک سے یہاں آکر پڑھنے والوں کے لئے اتنا اجنبی نہیں ، جتنا کوئی اور ملک ہو سکتا ہے۔
“لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشکل چیزیں نہیں ہوتیں ۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں کام کا انداز مختلف ہوتا ہے ۔نئے آنے والے طالب علموں کے لئے بینکوں کے ساتھ ڈیل کرنا ، فون کمپنیوں سے نیا فون حاصل کرنا ، جس کے لئے دو سال کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے ۔۔سب ایک نیا تجربہ ہوتا ہے ۔ لیکن نظام کو سمجھنے میں اتنا وقت نہیں لگتا ، اصل مشکل انہیں اپنے خاندان سے دور رہ کر پڑھائی پر توجہ دینے میں ہوتی ہے“۔
“ولیدظفر کے پاس انسانی رویوں اور ذہنی صحت کے بارے میں کثیر الثقافتی نظریہ ہے ۔ “
ڈاکٹر ولید ظفر کے پی ایچ ڈی ایڈوائزراور بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ کے ہیلتھ بی ہیوئیر اینڈ سوسائٹی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر لیری وسو ، جو خودبھی ایک ماہر اطفال اور چائلڈ سائیکولوجسٹ ہیں ، اپنے پاکستانی پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ ولید ظفر کی ذہانت، تربیت اور اکنامکس اور میڈیسن کے تعلیمی پس منظر کے زبردست معترف ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیری کہتے ہیں کہ “ولیدجس ملک سے آئے ہیں ، اس کے بہترین سفیر ہیں ۔ میں انہیں صرف پاکستانی طالبعلم کے طور پر نہیں دیکھتا ۔ویسے تو یہاں ہماری ایک بہت متنوع سٹوڈنٹ باڈی ہے ۔لیکن کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ مجھے ایک امریکن ایڈوائزر سمجھتا ہے یا صرف ایک ایڈوائزر ۔ لیکن وہ خود کسی بھی جگہ کے لئے ایک اچھا ایڈوائزر ثابت ہوگا ۔ وہ بہت ذہین ، بہت قابل اعتبار اور بہت اچھا کام کرنے والا ہے ۔ زبردست تجربہ ، گہری نظر اور بےحد پختگی کا مالک ۔۔میں تو کہوں گا کہ کاش ہم اس کی کلوننگ کر سکتے ۔ مجھے افسوس ہوگا جب ولیدامریکہ سے واپس پاکستان جائے گا ۔
”
لیری کہتے ہیں کہ ولید ظفر کے پاس انسانی رویے اور ذہنی صحت کے بارے میں ایک کثیر الثقافتی نظریہ ہے جو آج کے زمانے میں بے حد اہم ہو چکا ہے ۔ یہی سمجھ بوجھ وہ پاکستان واپس لے کر جائے گا ۔ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے ، لیکن کئی حوالوں سے یہ ایک یکساں اور کم متنوع ملک بھی ہے ۔ اس لئے ہم بیرون ملک سے یہاں آنے والوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔
ولید نے بڑے بڑے ڈیٹا سیٹس ،اور اعداد و شمار جمع کرنے والے پراجیکٹس پرمیرے ساتھ کام کیا ہے ، وہ جو تحقیق کرتا رہا ہے اسے ہم کہتے ہیں کوالیٹیٹو یا معیاری ریسرچ ، جس میں لوگوں کے انٹرویو کرنا ، ان پر غور و خوذ کرنا اور یہ مقابلہ کرناشامل ہوتا ہے کہ ایک کیس کا دوسرے سے کیا تعلق ہے ۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جوان تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو اتنا ااچھا استعمال کر سکیں ۔میرے خیال میں جب ولید پاکستان جا کر کام کرنے لگیں گے تو ایک ایسے لیڈر ثابت ہونگے جو لوگوں کو کچھ نہ کچھ سکھا سکے گا اورشعبہ صحت میں ہر ممکن مدد کر سکے گا۔