فوجی دور میں امریکہ نے برما میں جمہوریت کے حق میں اُٹھنے والی تحریک کی بھرپور حمایت کی: آنگ سان سوچی
واشنگٹن —
صدر براک اوباما نےجمہوریت اور انسانی حقوق کےلیے سالہا سال تک حوصلے، عزم اور ذاتی قربانی کے اقدار کا مظاہرہ کرنے پر, امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو سراہا ہے۔
آنگ سان سوچی نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صدر براک اوباما سے نجی ملاقات کی۔
جمہوری دور کے طرف گامزن ہونے، نیشنل لیگ فور ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر کے طور پر آنگ سان سو چی کی حاصل کردہ پیش رفت اور صدر تھین سین کے ساتھ مل کر کام کرنے پر صدر نےبرما کا خیر مقدم کیا۔
صدر نے سیاسی اور معاشی اصلاحات کو فروغ دینے اور برما کے عوام کے بنیادی حقوق کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیےامریکی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس سے قبل بدھ کے ہی روز کیپیٹول ہل میں ہونے والی ایک تقریب میں برما کی جمہوریت کی علامت، آنگ سان سوچی نے’ کانگریشنل گولڈ میڈل‘ وصول کیا۔
اُنھیں یہ ایوارڈ 2008ء میں اُس وقت دیا گیا تھا جب سابق فوجی قیادت نےاُنھیں گھر میں نظربند کر رکھا تھا، جسے آج اُنھوں نے ایک خصوصی تقریب میں بنفس نفیس حاصل کیا۔
اس موقعے پرآنگ سان سوچی نے امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فوجی دور میں امریکہ نے برما میں جمہوریت کے حق میں اُٹھنے والی تحریک کی بھرپور حمایت کی۔
اُنھوں نے محتاط انداز میں کہا کہ اُن کا ملک اب آزادی اور جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن، سابق خاتون اول لیڈی لورا بش اور سرکردہ قانون سازوں نے اندازاً 14برس کی نظربندی کے دوران حوصلہ دکھانے اور برداشت کا مظاہرہ کرنے پر آنگ سان سوچی کو سراہا۔
ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر، نینسی پلوسی نے کہا کہ کئی سالوں کے بعد اُن کی امریکہ میں موجودگی اُن کے ملک میں حالات بہتر ہونے کی علامت کا اظہار ہے۔
سینیٹ میں ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر مِچ مک کونیل نے کہا کہ امن کے نابیل انعام یافتہ سوچی نے دنیا بھر میں جمہوری اصلاحات اور انسانی حقوق کے لیے نمایاں کام کیا ہے۔
منگل کے روز آنگ سان سوچی نے کہا کہ وہ برما کےخلاف امریکہ کی طرف سے لاگو معاشی پابندیاں ہٹائی جائیں۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ جب تک فوج اصلاحات کے عمل کی مکمل حمایت نہیں کرتی تب تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کی قوم کا جمہوری مستقبل ناقابل تبدیل نہیں ہے۔
برما میں جمہوری اصلاحات لانے پر اُنھوں نے صدر تھین سین کو سراہا، جو ایک سابق جنرل ہیں اور جنھوں نے گذشتہ برس ہی عہدہ سنبھالا تھا۔
آنگ سان سوچی پیر کو 17روز کے امریکہ کے پہلے دورے پر پہنچی ہیں۔ اُنھیں 2010ء میں فوجی نظربندی سے رہائی ملی تھی۔ وہ ابھی امریکہ کے دورے پر ہوں گی جب اگلے ہفتے صدر تھین سین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے امریکہ پہنچنے والے ہیں۔
امریکہ میں قیام کے دوران وہ کیلی فورنیا، نیویارک اور انڈیانا کی ریاستوں کی طرف بھی جائیں گی، جہاں برمی نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
آنگ سان سوچی نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صدر براک اوباما سے نجی ملاقات کی۔
جمہوری دور کے طرف گامزن ہونے، نیشنل لیگ فور ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر کے طور پر آنگ سان سو چی کی حاصل کردہ پیش رفت اور صدر تھین سین کے ساتھ مل کر کام کرنے پر صدر نےبرما کا خیر مقدم کیا۔
صدر نے سیاسی اور معاشی اصلاحات کو فروغ دینے اور برما کے عوام کے بنیادی حقوق کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیےامریکی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس سے قبل بدھ کے ہی روز کیپیٹول ہل میں ہونے والی ایک تقریب میں برما کی جمہوریت کی علامت، آنگ سان سوچی نے’ کانگریشنل گولڈ میڈل‘ وصول کیا۔
اُنھیں یہ ایوارڈ 2008ء میں اُس وقت دیا گیا تھا جب سابق فوجی قیادت نےاُنھیں گھر میں نظربند کر رکھا تھا، جسے آج اُنھوں نے ایک خصوصی تقریب میں بنفس نفیس حاصل کیا۔
اس موقعے پرآنگ سان سوچی نے امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فوجی دور میں امریکہ نے برما میں جمہوریت کے حق میں اُٹھنے والی تحریک کی بھرپور حمایت کی۔
اُنھوں نے محتاط انداز میں کہا کہ اُن کا ملک اب آزادی اور جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن، سابق خاتون اول لیڈی لورا بش اور سرکردہ قانون سازوں نے اندازاً 14برس کی نظربندی کے دوران حوصلہ دکھانے اور برداشت کا مظاہرہ کرنے پر آنگ سان سوچی کو سراہا۔
ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر، نینسی پلوسی نے کہا کہ کئی سالوں کے بعد اُن کی امریکہ میں موجودگی اُن کے ملک میں حالات بہتر ہونے کی علامت کا اظہار ہے۔
سینیٹ میں ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر مِچ مک کونیل نے کہا کہ امن کے نابیل انعام یافتہ سوچی نے دنیا بھر میں جمہوری اصلاحات اور انسانی حقوق کے لیے نمایاں کام کیا ہے۔
منگل کے روز آنگ سان سوچی نے کہا کہ وہ برما کےخلاف امریکہ کی طرف سے لاگو معاشی پابندیاں ہٹائی جائیں۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ جب تک فوج اصلاحات کے عمل کی مکمل حمایت نہیں کرتی تب تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کی قوم کا جمہوری مستقبل ناقابل تبدیل نہیں ہے۔
برما میں جمہوری اصلاحات لانے پر اُنھوں نے صدر تھین سین کو سراہا، جو ایک سابق جنرل ہیں اور جنھوں نے گذشتہ برس ہی عہدہ سنبھالا تھا۔
آنگ سان سوچی پیر کو 17روز کے امریکہ کے پہلے دورے پر پہنچی ہیں۔ اُنھیں 2010ء میں فوجی نظربندی سے رہائی ملی تھی۔ وہ ابھی امریکہ کے دورے پر ہوں گی جب اگلے ہفتے صدر تھین سین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے امریکہ پہنچنے والے ہیں۔
امریکہ میں قیام کے دوران وہ کیلی فورنیا، نیویارک اور انڈیانا کی ریاستوں کی طرف بھی جائیں گی، جہاں برمی نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔