وزیراعلیٰ سندھ نے اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے الٹی میٹم کے ایک ہی روز بعد گورنر سندھ کو بلدیاتی اداروں کی تشکیل نو کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی یقین دہانی کرادی
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے معاملے پر حکمراں جماعت پیپلزپارٹی تنہائی کا شکار لگتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے الٹی میٹم کے ایک روز بعدہی گورنر سندھ کو بلدیاتی اداروں کی تشکیل نو کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ تاہم، کراچی میں رواں ماہ ن153 ہلاکتیں بھی دونوں جماعتوں کے ساتھ چلنے پر ایک اور بڑا سوالیہ نشان ہے۔
پیر کو رات گئے حکومتی اتحاد میں شامل اہم جماعت ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کوالٹی میٹم دیا تھا کہ اس کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ تین روز کے اندر حکومت سے الگ ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم کا سر فہرست مطالبہ یہ ہے کہ سندھ میں بلدیاتی آرڈیننس کے اجرا کے بعداس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اور نہ ہی سندھ اسمبلی میں اب تک بل آیاہے۔
دوسرا اختلاف ایم کیو ایم کے ووٹ بینک اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن و امان کی روز بروز بگڑتی صورتحال ہے۔ ایم کیو ایم کو اس بات پر بھی شدید اختلافات ہیں کہ مبینہ طور پر اس کے وزرا کے محکموں میں مداخلت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ عوام کی خدمت نہیں کر پا رہے۔
الٹی میٹم کے اگلے ہی دن یعنی منگل کو وزیراعلیٰ سندھ گورنر ہاوٴس پہنچ گئے جہاں انہوں نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ون ٹو ون ملاقات کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس موقع پر گورنر سندھ نے بلدیاتی اداروں کی تشکیل نو نہ ہونے اور نئے بلدیاتی آرڈیننس کوصوبائی اسمبلی میں پیش نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیاجس کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ بلدیاتی اداروں کی تشکیل نو کا نوٹیفیکیشن جلدجار ی ہو جائے گا۔
ادھر حیدر آباد میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھہڑو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق نہیں کی ہے ، یقین ہے کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں گے۔
نثار کھہڑو نے اِس موقع پر نئے بلدیاتی نظام پر روٹھے اتحادیوں سے شکوہ کیا کہ وہ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے بعد دو نظام کی بات تو کرتے ہیں، لیکن اِس وقت اُنھوں نے ہڑتال کیوں نہیں کی جب وہ اس نظام کا حصہ تھے۔
نثار کھہڑو کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے مجموعی طور پر 150 ارکان ہیں۔ اگر دونوں جماعتیں چاہتیں تو بل فوری طور پر منظور کرایا جاسکتا تھا۔ لیکن، اس پر بحث کیلئے آرڈیننس جاری کیا۔دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی کی ایک ٹیم مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر روٹھے ہوئے پرانے اتحادیوں سے بھی بھر پور رابطوں میں مصروف ہے اور انہیں منانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے تحفظات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اس کے سینئر رہنما فاروق ستار صدر زرداری کے ساتھ نیویارک میں اقوام متحدہ کے جنر ل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں۔
مبصرین کے مطابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی اگر چہ بلدیاتی آرڈیننس پر تو ایم کیو ایم کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تاہم، کراچی میں قیام امن دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے بڑھا سکتا ہے جہاں بدھ کو بھی پرتشدد واقعات میں مزید بارہ افراد لقمہٴ اجل بن گئے۔
پیر کو رات گئے حکومتی اتحاد میں شامل اہم جماعت ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کوالٹی میٹم دیا تھا کہ اس کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ تین روز کے اندر حکومت سے الگ ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم کا سر فہرست مطالبہ یہ ہے کہ سندھ میں بلدیاتی آرڈیننس کے اجرا کے بعداس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اور نہ ہی سندھ اسمبلی میں اب تک بل آیاہے۔
دوسرا اختلاف ایم کیو ایم کے ووٹ بینک اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن و امان کی روز بروز بگڑتی صورتحال ہے۔ ایم کیو ایم کو اس بات پر بھی شدید اختلافات ہیں کہ مبینہ طور پر اس کے وزرا کے محکموں میں مداخلت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ عوام کی خدمت نہیں کر پا رہے۔
الٹی میٹم کے اگلے ہی دن یعنی منگل کو وزیراعلیٰ سندھ گورنر ہاوٴس پہنچ گئے جہاں انہوں نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ون ٹو ون ملاقات کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس موقع پر گورنر سندھ نے بلدیاتی اداروں کی تشکیل نو نہ ہونے اور نئے بلدیاتی آرڈیننس کوصوبائی اسمبلی میں پیش نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیاجس کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ بلدیاتی اداروں کی تشکیل نو کا نوٹیفیکیشن جلدجار ی ہو جائے گا۔
ادھر حیدر آباد میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھہڑو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق نہیں کی ہے ، یقین ہے کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں گے۔
نثار کھہڑو نے اِس موقع پر نئے بلدیاتی نظام پر روٹھے اتحادیوں سے شکوہ کیا کہ وہ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے بعد دو نظام کی بات تو کرتے ہیں، لیکن اِس وقت اُنھوں نے ہڑتال کیوں نہیں کی جب وہ اس نظام کا حصہ تھے۔
نثار کھہڑو کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے مجموعی طور پر 150 ارکان ہیں۔ اگر دونوں جماعتیں چاہتیں تو بل فوری طور پر منظور کرایا جاسکتا تھا۔ لیکن، اس پر بحث کیلئے آرڈیننس جاری کیا۔دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی کی ایک ٹیم مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر روٹھے ہوئے پرانے اتحادیوں سے بھی بھر پور رابطوں میں مصروف ہے اور انہیں منانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے تحفظات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اس کے سینئر رہنما فاروق ستار صدر زرداری کے ساتھ نیویارک میں اقوام متحدہ کے جنر ل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں۔
مبصرین کے مطابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی اگر چہ بلدیاتی آرڈیننس پر تو ایم کیو ایم کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تاہم، کراچی میں قیام امن دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے بڑھا سکتا ہے جہاں بدھ کو بھی پرتشدد واقعات میں مزید بارہ افراد لقمہٴ اجل بن گئے۔