ئے بلدیاتی نظام کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی ، قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ملکر جلد نئی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا: جلال محمود شاہ
نئے بلدیاتی نظام کی سندھ اسمبلی سے منظوری کے باوجود اس کی مخالفت میں قوم پرست جماعتوں کے احتجاج میں شدت آ گئی ہے۔ نواب شاہ میں پولیس سے جھڑپوں کے دوران ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔قوم پرست اور دیگر جماعتوں نے بلدیاتی نظام کو سندھ کی تقسیم کا ایجنڈا قرار دیا۔
سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012ء کے اجراء کے چوبیس روز بعد اسے پیر کو سندھ اسمبلی سے منظور کرا لیا گیا جس کے بعد قوم پرست جماعتوں کی کال پرحیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، نواب شاہ ، عمر کوٹ ، سانگھڑ ، کشمور، خیر پور اور نوشہرو فیروز سمیت کئی شہروں میں ہڑتال کی گئی جس کے دوران ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔
نواب شاہ میں سکرنڈ روڈ پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور دس سے زائد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر شدید پتھراوٴکیا گیا اور ائیر پورٹ تھانے کو آگ لگا دی گئی جس کے نتیجے میں تھانے میں رکھا ریکارڈ اور دیگر قیمتی اشیاجل گئیں۔ مشتعل افراد کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے بھی ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی گئی۔
حیدرآباد میں بھی قوم پرستوں کی جانب سے شدید احتجاج سامنے میں آیا۔ لاڑکانہ میں کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر بھی سناٹا رہا۔سکھر میں مکمل شٹرڈاوٴن ہڑتال رہی تاہم پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری شہر میں تعینات تھی اس لئے کوئی بڑا احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ ٹھٹھہ ، بدین اور دیگر شہروں میں بھی ہڑتال رہی اور ریلیاں نکالی گئیں۔ ریلیوں میں مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنان نے بھی حصہ لیا۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ اور’ سندھ بچایو کمیٹی‘ کے چیئرمین سید جلال محمود شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی آرڈیننس کا منظور ہونا سندھ اسمبلی کا سیاہ دن ہے۔ بلدیاتی آرڈیننس کا بل منظور کرنے والے ارکان اسمبلی کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے وزرا کا سندھ میں چلنا مشکل ہوجائے گا۔
جلال محمود شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے بلدیاتی نظام کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی ، قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ملکر جلد نئی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
ادھر وفاق میں پیپلزپارٹی کی مضبوط اتحادی جماعت اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کے بقول آرڈیننس عوام پر مسلط کرکے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے سندھ دھرتی کی آوازکو دبایا جارہا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کی عوام کسی صورت اس نام نہاد نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔مسلم لیگ ف، نیشنل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کی صوبائی قیادت بھی آرڈیننس کی مخالفت میں بھرپور طریقے سے سرگرم ہے۔
سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012ء کے اجراء کے چوبیس روز بعد اسے پیر کو سندھ اسمبلی سے منظور کرا لیا گیا جس کے بعد قوم پرست جماعتوں کی کال پرحیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، نواب شاہ ، عمر کوٹ ، سانگھڑ ، کشمور، خیر پور اور نوشہرو فیروز سمیت کئی شہروں میں ہڑتال کی گئی جس کے دوران ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔
نواب شاہ میں سکرنڈ روڈ پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور دس سے زائد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر شدید پتھراوٴکیا گیا اور ائیر پورٹ تھانے کو آگ لگا دی گئی جس کے نتیجے میں تھانے میں رکھا ریکارڈ اور دیگر قیمتی اشیاجل گئیں۔ مشتعل افراد کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے بھی ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی گئی۔
حیدرآباد میں بھی قوم پرستوں کی جانب سے شدید احتجاج سامنے میں آیا۔ لاڑکانہ میں کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر بھی سناٹا رہا۔سکھر میں مکمل شٹرڈاوٴن ہڑتال رہی تاہم پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری شہر میں تعینات تھی اس لئے کوئی بڑا احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ ٹھٹھہ ، بدین اور دیگر شہروں میں بھی ہڑتال رہی اور ریلیاں نکالی گئیں۔ ریلیوں میں مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنان نے بھی حصہ لیا۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ اور’ سندھ بچایو کمیٹی‘ کے چیئرمین سید جلال محمود شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی آرڈیننس کا منظور ہونا سندھ اسمبلی کا سیاہ دن ہے۔ بلدیاتی آرڈیننس کا بل منظور کرنے والے ارکان اسمبلی کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے وزرا کا سندھ میں چلنا مشکل ہوجائے گا۔
جلال محمود شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے بلدیاتی نظام کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی ، قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ملکر جلد نئی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
ادھر وفاق میں پیپلزپارٹی کی مضبوط اتحادی جماعت اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کے بقول آرڈیننس عوام پر مسلط کرکے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے سندھ دھرتی کی آوازکو دبایا جارہا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کی عوام کسی صورت اس نام نہاد نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔مسلم لیگ ف، نیشنل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کی صوبائی قیادت بھی آرڈیننس کی مخالفت میں بھرپور طریقے سے سرگرم ہے۔