اپنی شاندار کارکردگی کے بعد، امریکہ کی صدارت کے ریپبلیکن امیدوار مٹ رومنی اپنی سیاسی ساکھ کو اور مضبوط بنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
واشنگٹن —
بدھ کے روز کے مباحثے میں صدر براک اوباما کے خلاف اپنی شاندار کارکردگی کے بعد، امریکہ کی صدارت کے ریپبلیکن امیدوار مٹ رومنی اپنی سیاسی ساکھ کو اور مضبوط بنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
مباحثے کے شروع ہی سے صاف نظر آ رہا تھا کہ مٹ رومنی اپنی گرفت مضبوط کر رہےہیں۔
ان کی پوری کوشش تھی کہ تمام تر توجہ صدر براک اوباما کی اقتصادی کارکردگی پر رہے۔
’’صدر کی پالیسیوں کے نتیجے میں، درمیانی آمدنی والے امریکی زبردست بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ انہیں بری طرح کچلا جا رہا ہے۔‘‘
اسٹیج پر رومنی پُر سکون اور مطمئن نظر آ رہے تھے ۔ انھوں نے جارحانہ انداز میں ڈیموکریٹک صدر کے ریکارڈ پر تنقید کی لیکن ذاتی حملوں سے پرہیز کیا۔
تجزیہ کاروں نے عام طور سے مباحثے میں صدر اوباما کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا ۔ ان میں سے بہت سوں نے کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ بس اپنی صفائی پیش کر رہے ہیں، جبکہ اُن کے جوابات میں جو ش و جذبے کا فقدان تھا۔
اوباما نے مباحثے کے اگلے روز، کولوریڈو کے ایک جلسے میں زیادہ توانائی کا اظہار کیا جس سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ بقیہ دو مباحثوں میں ان کا رویہ زیادہ پُر زور ہو گا۔
’’دیکھیئے آپ نے گذشتہ رات اسٹیج پر جن صاحب کو دیکھا، وہ مٹ رومنی کے فیصلوں کے لیے ، اور جو کچھ وہ گذشتہ سال کہتے رہے ہیں، اس کے لیے جوابدہ ہونا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گذشتہ سال وہ جو کچھ بیچتے رہے ہیں، وہ ہم بالکل نہیں چاہتے۔‘‘
صدر کے سیاسی مشیر ڈیوڈ ایکزلروڈ کہتے ہیں کہ مستقبل کے مباحثوں میں، اوباما کی ٹیم کچھ ردو بدل کرے گی ۔
’’آپ کو توازن قائم رکھنا چاہیئے۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی کھڑا ہو کر خود اپنے اور آپ کے ریکارڈ اور خیالات کو ، مسخ کرتا رہے۔
سیاسی تجزیہ کار چارلی کُک کہتے ہیں کہ دونوں اُمیدواروں کے لب و لہجے اور اندازِ تخاطب میں نمایاں فرق تھا۔
’’اوباما ایسی ٹیم کی طرح معلوم ہو رہے تھے جو مطمئن ہو اور میچ جیت رہی ہو۔ میں اسے خود پسندی تو نہیں کہوں گا، لیکن ایسا لگتا تھا کہ انہیں کوئی زیادہ فکر نہیں ہے۔‘‘
کُک کہتے ہیں کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان ریاستوں میں جہاں ووٹرز کسی بھی طرف جا سکتے ہیں، وہاں مباحثے میں رومنی کی کارکردگی سے ایسے ووٹر متاثر ہوں گے یا نہیں جنھوں نے ابھی تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ کس اُمیدوار کو ووٹ دیں گے۔
’’لہٰذا, اب سوال یہ ہے کہ اس مباحثے سے اوہایو میں، ورجینیا میں، فلوریڈا میں، اور کولوریڈو میں ، ووٹرز کس حد تک متاثر ہوں گے۔‘‘
ریپبلیکن پولسٹر گلین بولگر کہتے ہیں کہ رومنی نے ووٹروں میں اپنا ذاتی تاثر بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے کیونکہ اس شعبے میں رائے عامہ کے جائزوں میں، صدر اوباما کو طویل عرصے سے برتری حاصل رہی ہے۔
’’اس مباحثے سے مٹ رومنی کو اپنا تاثر بہتر بنانے میں کتنی مدد ملی؟ میرا خیال ہے کہ رومنی اس سے کہیں زیادہ کھرے نظر آئے جتنا ان کے بارے میں خیال تھا، یعنی ایسی شخصیت جو بہ آسانی وائٹ ہاؤس میں داخل ہو سکتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہو گا۔‘‘
پہلے مباحثے میں رومنی کی کارکردگی اُن کی رپبلکن پارٹی کے اُن ارکان کے لیے باعث اطمینان ہوگی جنہیں یہ پریشانی تھی کہ صدر اوباما بعض اہم ریاستوں میں جہاں اس انتخاب کا فیصلہ ہونا ہے، اتنی سبقت حاصل کرتے جا رہے ہیں جسے ختم کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔
مباحثے کے شروع ہی سے صاف نظر آ رہا تھا کہ مٹ رومنی اپنی گرفت مضبوط کر رہےہیں۔
ان کی پوری کوشش تھی کہ تمام تر توجہ صدر براک اوباما کی اقتصادی کارکردگی پر رہے۔
’’صدر کی پالیسیوں کے نتیجے میں، درمیانی آمدنی والے امریکی زبردست بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ انہیں بری طرح کچلا جا رہا ہے۔‘‘
اسٹیج پر رومنی پُر سکون اور مطمئن نظر آ رہے تھے ۔ انھوں نے جارحانہ انداز میں ڈیموکریٹک صدر کے ریکارڈ پر تنقید کی لیکن ذاتی حملوں سے پرہیز کیا۔
تجزیہ کاروں نے عام طور سے مباحثے میں صدر اوباما کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا ۔ ان میں سے بہت سوں نے کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ بس اپنی صفائی پیش کر رہے ہیں، جبکہ اُن کے جوابات میں جو ش و جذبے کا فقدان تھا۔
اوباما نے مباحثے کے اگلے روز، کولوریڈو کے ایک جلسے میں زیادہ توانائی کا اظہار کیا جس سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ بقیہ دو مباحثوں میں ان کا رویہ زیادہ پُر زور ہو گا۔
’’دیکھیئے آپ نے گذشتہ رات اسٹیج پر جن صاحب کو دیکھا، وہ مٹ رومنی کے فیصلوں کے لیے ، اور جو کچھ وہ گذشتہ سال کہتے رہے ہیں، اس کے لیے جوابدہ ہونا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گذشتہ سال وہ جو کچھ بیچتے رہے ہیں، وہ ہم بالکل نہیں چاہتے۔‘‘
صدر کے سیاسی مشیر ڈیوڈ ایکزلروڈ کہتے ہیں کہ مستقبل کے مباحثوں میں، اوباما کی ٹیم کچھ ردو بدل کرے گی ۔
’’آپ کو توازن قائم رکھنا چاہیئے۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی کھڑا ہو کر خود اپنے اور آپ کے ریکارڈ اور خیالات کو ، مسخ کرتا رہے۔
سیاسی تجزیہ کار چارلی کُک کہتے ہیں کہ دونوں اُمیدواروں کے لب و لہجے اور اندازِ تخاطب میں نمایاں فرق تھا۔
’’اوباما ایسی ٹیم کی طرح معلوم ہو رہے تھے جو مطمئن ہو اور میچ جیت رہی ہو۔ میں اسے خود پسندی تو نہیں کہوں گا، لیکن ایسا لگتا تھا کہ انہیں کوئی زیادہ فکر نہیں ہے۔‘‘
کُک کہتے ہیں کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان ریاستوں میں جہاں ووٹرز کسی بھی طرف جا سکتے ہیں، وہاں مباحثے میں رومنی کی کارکردگی سے ایسے ووٹر متاثر ہوں گے یا نہیں جنھوں نے ابھی تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ کس اُمیدوار کو ووٹ دیں گے۔
’’لہٰذا, اب سوال یہ ہے کہ اس مباحثے سے اوہایو میں، ورجینیا میں، فلوریڈا میں، اور کولوریڈو میں ، ووٹرز کس حد تک متاثر ہوں گے۔‘‘
ریپبلیکن پولسٹر گلین بولگر کہتے ہیں کہ رومنی نے ووٹروں میں اپنا ذاتی تاثر بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے کیونکہ اس شعبے میں رائے عامہ کے جائزوں میں، صدر اوباما کو طویل عرصے سے برتری حاصل رہی ہے۔
’’اس مباحثے سے مٹ رومنی کو اپنا تاثر بہتر بنانے میں کتنی مدد ملی؟ میرا خیال ہے کہ رومنی اس سے کہیں زیادہ کھرے نظر آئے جتنا ان کے بارے میں خیال تھا، یعنی ایسی شخصیت جو بہ آسانی وائٹ ہاؤس میں داخل ہو سکتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہو گا۔‘‘
پہلے مباحثے میں رومنی کی کارکردگی اُن کی رپبلکن پارٹی کے اُن ارکان کے لیے باعث اطمینان ہوگی جنہیں یہ پریشانی تھی کہ صدر اوباما بعض اہم ریاستوں میں جہاں اس انتخاب کا فیصلہ ہونا ہے، اتنی سبقت حاصل کرتے جا رہے ہیں جسے ختم کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔