پولیس مہینے دو مہینے اور بسااوقات اس سے بھی کہیں زیادہ عرصے تک لاش کے ورثاء کا انتظار کرتی ہے لیکن جب بھی کوئی دعویدار سامنے نہیں آتا تو انہیں غسل اور کفن دے کر سپرد خاک کردیا جاتا ہے۔
کراچی کے مردہ خانوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ہرروز قتل و غارت گری کی وارداتوں اور ہررات وارث اور لاوارث لاشوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری، دیرینہ دشمنی، حادثات۔۔ایک نہیں۔۔کئی وجوہات ہیں جن کے سبب انسانی زندگیوں کی سرگرمیوں میں کمی اور سرد خانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔
کراچی شہر میں کئی مردہ خانے ہیں لیکن سہرب گوٹھ کے قریب واقع ’ایدھی سرد خانہ ‘ سب سے زیادہ خبروں میں رہتا ہے ۔ پولیس کو ان دنوں جتنی بھی لاشیں شہر بھر کے گلی محلوں سے ملتی ہیں انہیں مناسب کارروائی کے بعد وہاں پہنچادیا جاتا ہے۔
سرد خانے کے ایک ملازم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان دنوں یومیہ5سے 10لاشیں سرد خانے میں منتقل کی جاتی ہیں۔ یہ لاشیں زیادہ تر سیاسی کارکنوں کی ہوتی ہیں لیکن ان کے وارث سرد خانے سے محض اس لئے رابطہ نہیں کرتے کہ ایک طرف تو کہیں مخالف سیاسی عناصر کی نظروں میں نہ آجائیں یا کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس انہیں کسی جھمیلے میں ڈال دے۔ لہذا یہ لاشیں کئی کئی مہینوں تک سرد خانوں میں اپنی تدفین کے انتظار میں پڑی رہتی ہیں۔
سرد خانے کے عملے میں سے ہی ایک شخص نے وی او اے کو بتایا کہ گزشتہ مہینے بلدیہ ٹاوٴن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ میں ہلاک ہونے والے کم ازکم 30افراد کی لاشیں ابھی تک اسی سرد خانے میں پڑی ہیں۔ ابھی تک کسی نے ان کی شناخت کی ہے اور نہ ہی ان ورثاء میں سے کسی نے سرد خانے کی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے۔
لاوارث لاشیں کب تک یوں ہی پڑی رہتی ہیں ؟ اور بالآخر ان کا کیا ہوتا ہے ؟ محکمہ پولیس کے ایک عہدیدار محمد اسلم انصاری کا کہنا ہے ”پولیس مہینے دو مہینے اور بسااوقات اس سے بھی کہیں زیادہ عرصے تک لاش کے ورثاء کا انتظار کرتی ہے لیکن جب بھی کوئی دعویدار سامنے نہیں آتا تو انہیں غسل اور کفن دے کر سپرد خاک کردیا جاتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں اسلم انصاری کاکہنا تھا کہ لاوارث لاش کے ورثاء بسااوقات اس لئے بھی سامنے نہیں آتے کہ خود کو حقیقی وارث ثابت کرنے اور پولیس کو یقین دلانے کا عمل بہت طویل اور بدقسمتی سے تکلیف دہ بھی ہے ۔ قریبی اور خون کے رشتے داروں کی تو آسانی سے تصدیق ہوجاتی ہے لیکن دور پرے کے رشتے داریا جان پہچان کے لوگ ’وقت کی کمی ‘ کا سہارا لے کر اس معاملے سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔اور یوں بہت سی لاشیں قبرمیں اترنے تک لاوارت ہی رہ جاتی ہیں۔
کراچی شہر میں کئی مردہ خانے ہیں لیکن سہرب گوٹھ کے قریب واقع ’ایدھی سرد خانہ ‘ سب سے زیادہ خبروں میں رہتا ہے ۔ پولیس کو ان دنوں جتنی بھی لاشیں شہر بھر کے گلی محلوں سے ملتی ہیں انہیں مناسب کارروائی کے بعد وہاں پہنچادیا جاتا ہے۔
سرد خانے کے ایک ملازم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان دنوں یومیہ5سے 10لاشیں سرد خانے میں منتقل کی جاتی ہیں۔ یہ لاشیں زیادہ تر سیاسی کارکنوں کی ہوتی ہیں لیکن ان کے وارث سرد خانے سے محض اس لئے رابطہ نہیں کرتے کہ ایک طرف تو کہیں مخالف سیاسی عناصر کی نظروں میں نہ آجائیں یا کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس انہیں کسی جھمیلے میں ڈال دے۔ لہذا یہ لاشیں کئی کئی مہینوں تک سرد خانوں میں اپنی تدفین کے انتظار میں پڑی رہتی ہیں۔
سرد خانے کے عملے میں سے ہی ایک شخص نے وی او اے کو بتایا کہ گزشتہ مہینے بلدیہ ٹاوٴن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ میں ہلاک ہونے والے کم ازکم 30افراد کی لاشیں ابھی تک اسی سرد خانے میں پڑی ہیں۔ ابھی تک کسی نے ان کی شناخت کی ہے اور نہ ہی ان ورثاء میں سے کسی نے سرد خانے کی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے۔
لاوارث لاشیں کب تک یوں ہی پڑی رہتی ہیں ؟ اور بالآخر ان کا کیا ہوتا ہے ؟ محکمہ پولیس کے ایک عہدیدار محمد اسلم انصاری کا کہنا ہے ”پولیس مہینے دو مہینے اور بسااوقات اس سے بھی کہیں زیادہ عرصے تک لاش کے ورثاء کا انتظار کرتی ہے لیکن جب بھی کوئی دعویدار سامنے نہیں آتا تو انہیں غسل اور کفن دے کر سپرد خاک کردیا جاتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں اسلم انصاری کاکہنا تھا کہ لاوارث لاش کے ورثاء بسااوقات اس لئے بھی سامنے نہیں آتے کہ خود کو حقیقی وارث ثابت کرنے اور پولیس کو یقین دلانے کا عمل بہت طویل اور بدقسمتی سے تکلیف دہ بھی ہے ۔ قریبی اور خون کے رشتے داروں کی تو آسانی سے تصدیق ہوجاتی ہے لیکن دور پرے کے رشتے داریا جان پہچان کے لوگ ’وقت کی کمی ‘ کا سہارا لے کر اس معاملے سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔اور یوں بہت سی لاشیں قبرمیں اترنے تک لاوارت ہی رہ جاتی ہیں۔