سندھ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مرض میں اضافہ

ملک بھر میں رجسٹرڈ کیسز میں سے 45 سے 50 فیصد مریض سندھ میں رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ تعداد کسی بھی دوسرے صوبے میں پائے جانے والے مریضوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ، خصوصاً صوبہ سندھ کے دو شہروں کراچی اور لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔حکومت سندھ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس کی بنیادی وجہ منشیات، مرد و خواتین سیکس ورکرز اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کےجون 2012ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد سب سے زیادہ رہی جو 3ہزار 5سو 69ہے جبکہ یہاں57 افراد کو ایڈز کا مرض لاحق ہے۔

دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے جہاں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی تعداد 238ہے جبکہ تین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر سلیمان اووڈھو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ سن 2010ء تک ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے جبکہ دو سال بعد کراچی لاڑکانہ سے آگے نکل گیا ہے۔

ڈاکٹر اووڈھو کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نوجوانوں میں بہت تیزی سے بڑھتا ہوا منشیات کا استعمال ہے ۔ دوسری اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات یا بے راہ روی ہے ۔ مریضوں کی بیشتر تعداد اپنی شریک حیات تک محدود نہیں ۔ اسی طرح جسم فروشی کرنے والی خواتین خود بھی ایڈز کا شکار ہوجاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس موذی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کراچی میں تیسری جنس کے افراد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ اور جنس کے کاروبار میں ان کے ملوث ہونے کانتیجہ ایچ آئی وی ایڈز میں نکل رہاہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کے بارے میں شعور پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔ ’شروع شروع میں ایڈز کے مریض شرم کی وجہ سے سامنے نہیں آتے تھے اوریہی وجہ تھی کہ اصل مریضو ں کی تعداد رجسٹرڈ مریضوں کی سے کہیں زیادہ ہوتی تھی تاہم اب میڈیا کی جانب سے شعور اجاگر کرنے سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

ایڈز کنٹرول پروگرام ہی سے وابستہ ڈاکٹر منور خان کا کہنا ہے ’پاکستان کی نوجوان نسل سب سے زیادہ خطرے کا شکارہے۔’صرف چھبیس فیصدمنشیات کے عادی نوجوان جنسی تعلقات کے دوران محفوظ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ان میں سے صرف تیرہ فیصد ایچ آئی وی ٹیسٹ کروا کے انفیکشن کے بارے میں معلومات حاصل کر پاتے ہیں جبکہ باقی ساری زندگی لاعلم رہتے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے‘۔

صوبہ سندھ میں رجسٹرڈکیسزکی تعداد

صوبہ سندھ میں 4971رجسٹرڈ کیسز میں سے 4712ایچ آئی وی پازیٹومریض اور 215ایڈز کے ایڈوانس اسٹیج کے مریض ہیں۔ملک بھر میں رجسٹرڈ کیسز میں سے 45 سے 50 فیصد مریض سندھ میں رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ تعداد کسی بھی دوسرے صوبے میں پائے جانے والے مریضوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

ایچ آئی وی پوزیٹو کیسز میں مردوں کی تعداد 4457ہے۔ اس میں 4428مرد بالغ اور29نوعمر لڑکے ہیں۔255خواتین ایچ آئی وی پوزیٹو مریض ہیں جن میں232 خواتین اور 23 لڑکیاں ہیں۔

خطرات سے آگاہی

ڈاکٹر منور خان کے مطابق ’بیماری سے بچاوٴ کے طریقے کے بارے میں معلومات نہ ہونا، غربت، سماجی ناہمواری، جنسی تشدد اور استحصال ، جنس کی بنیاد پر تفریق اور طبی سہولیات کی عدم فراہمی یہ تمام چیزیں بنیادی خطرات میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر خان کے مطابق گلیوں میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے نوجوان اور بچے جن کاکوئی سرپرست یا خاندا ن نہیں ہوتا ان کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ایڈز کنٹرول پروگرام کے مانیٹرنگ اور ایولیوشن آفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد کے مطابق علاج پر پانچ ہزار روپے کا خرچ آتا ہے جب کہ علاج کے سلسلے میں کرائے جانے والے ٹیسٹ پر دس ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں۔

سندھ حکومت نے ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کے لئے سول اسپتال کراچی میں دو سینٹر قائم کئے ہیں جن میں سے ایک بڑوں اور دوسرا بچوں کے لئے ہے جبکہ ایک ایک سینٹر چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ، آغا خان یونیورسٹی ہاسپٹل اور ایک انڈس اسپتال میں قائم کیا گیا ہے۔