سستے داموں سی این جی گیس کی فراہمی کا فیصلہ بے ثمر ہوگیا

C

سی این جی بحران کی بنیادی وجہ سی این جی مالکان کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ پاکستان میں جتنے سی این جی اسٹیشنز ممکن ہوسکیں گے ان کو بند کر دیں گے تاکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔
پاکستان میں عوام کو سستے داموں سی این جی کی فراہمی کے لئے 25اکتوبر کو جاری کیا جانے والا عدالتی فیصلہ، زیادہ منافع کمانے کے شوقین سی این جی اسٹیشن مالکان کی ہٹ دھرمی کے سبب بے ثمر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس حکم کوسپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہوئے 34دن ہوچکے ہیں لیکن واقعات گواہ ہیں کہ 34دنوں میں سے 14دن ہڑتالی حربوں کی نذر ہوگئے اور آج نوبت یہ ہے کہ پچھلے تین دنوں سے ملک بھر میں سی این جی کی فراہمی بند ہے۔

مذکورہ صورتحال کے نتیجے میں عوام کا پارہ بڑھ رہا ہے ۔ منگل کو ایم اے جناح روڈ پر عوامی غصہ اور بے چینی ہنگامہ آرائی ، احتجاج اور توڑ پھوٹ کی صورت میں برآمد ہوئی جس کے بعد کچھ اسٹیشن جزوی طور پر کھول دیئے گئے تاہم حیرت انگیز طور پر بدھ سے جمعہ کی صبح تک یہ اسٹیشن ہفتہ وار لوڈ شیڈنگ شیڈول کے تحت بند کردیئے گئے حالانکہ ارباب اختیار واقف تھے کہ پہلے ہی دو دنوں سے گیس کی بندش جاری ہے ۔

پے درپے ہڑتالیں اور گیس کی بندش

25 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فی کلو سی این جی گیس میں تیس روپے نوے پیسے کمی کا حکم دیا تھا جس سے عوامی سطح پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم اس کے بعد سے اب تک سی این جی مالکان نے مختلف بہانوں سے وقفے وقفے سے گیس کی سپلائی بند رکھی ہے۔

پچیس اکتوبر سے اٹھائیس نومبر تک یہ چونتیس دن بنتے ہیں۔۔کراچی میں ہر ہفتے میں دو دن سی این جی بند ہوتی ہے۔اس طرح ان دنوں کی مجموعی تعداد آٹھ بنتی ہے ۔ فیصلہ آنے کے فوری بعد سی این جی اسٹیشنز بند کردیئے گئے جبکہ چھبیس تاریخ کو بھی سی این جی بند رہے۔

یکم نومبر کو سی این جی کی قیمتوں کے تعین سے متعلق سماعت میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ انیس نومبر تک قیمتیں برقرار رکھی جائیں لیکن2 نومبر کوہی سی این جی اسٹیشن مالکان نے غیر اعلانیہ ہڑتال کر دی۔ انیس نومبر کو عدالت نے حکم دیا کہ پانچ دسمبر تک قیمتیں برقرار رکھی جائیں اور تمام فریقین مشاورت کر کے قیمتوں کا تعین کریں۔

اس دوران محرم الحرام کے پہلے عشرے کے آخری دو روز بھی سی این جی اسٹیشن بند رہے۔چھبیس اور ستائیس نومبر کو بھی سی این جی اسٹیشنز پر مکمل ہڑتال رہی جبکہ اٹھائیس اور انتیس نومبر کوگیس کی لوڈ شیڈنگ کے سبب اسٹیشنز بند رہے۔

مندرجہ بالا حالات و واقعات گواہ ہیں کہ سی این جی اسٹیشن مالکان اپنے تقریباًنصف منافع کو کم کرنا نہیں چاہتے ، اس لئے انہوں نے ہڑتالی حربے اپنائے ہوئے ہیں جس کے سبب عدالتی فیصلے کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے ۔ الٹا پبلک ٹرانسپورٹ انتہائی محدود ہوجانے سے عوام مجبوراً گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔

سب سے زیادہ برا حال رکشا ڈرائیورز کا ہے ۔ یہ لوگ روزانہ آمدنی پر گزارہ کرتے اور رکشا کا کرایہ ادا کرتے ہیں لیکن ہڑتال کے سبب کئی دنوں سے ان کا کام تھپ پڑا ہے۔ پرانی سبزی منڈی کے قریب رہنے والے ایک رکشا ڈرائیور ارشاد کا کہنا ہے کہ اس سے اچھا تو یہ تھا کہ گیس کے دام ہی کم نہ ہوتے۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں ایک سیاسی کارکن نسیم اختر کا کہنا ہے’ ملک میں کرپشن ، سرکاری ملازمین سے ملی بھگت ، مافیا کی اجارہ داری اور کمزور قانون کے سبب سپریم کورٹ بھی سی این جی مالکان کوکنڑول میں رکھنے پر بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ سی این جی مالکان کی بلاجواز ہٹ دھرمی دراصل عدلیہ کی لاچاری کو ظاہر کررہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک نہ تو عدالتی فیصلے کو نافذ کرانے کے لئے کوئی حکمت عملی اپنائی گئی ہے اور نہ ہی ایس لگتا ہے کہ اسے اس معاملے میں کوئی تشوش ہے۔ لہذا ہوگا یہ کہ اوگرا کی نگرانی میں ہی دوچار دنوں میں گیس کے دام دوبارہ بڑھا دیئے جائیں گے اور یوں مافیا ایک مرتبہ پھر جیت جائے گی۔ ‘

سینئر صحافی کامران خان کے مطابق ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد روکنے کیلئے 85فیصدسی این جی اسٹیشنزبند کردیئے گئے ہیں۔ان کے مطابق سی این جی بحران کی بنیادی وجہ سی این جی مالکان کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ پاکستان میں جتنے سی این جی اسٹیشنز ممکن ہوسکیں گے ان کو بند کر دیں گے تاکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔

طالبان کی دھمکی بھی بے اثر ہوگئی

مالکان کے خلاف طالبان کی دھمکی بھی بے اثرثابت ہورہی ہے۔روزنامہ جنگ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان نے سی این جی اسٹیشنوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ سی این جی اسٹیشن مالکان کے قریبی ذرائع کے مطابق گزشتہ روزکوہاٹ روڈ ، رنگ روڈ ، یونیورسٹی روڈ ، چارسدہ روڈ سمیت مختلف مقامات پر سی این جی اسٹیشنوں کے مالکان کو شدت پسندوں کی جانب سے دھمکی آمیز خطوط ارسال کیے گئے جس میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے فوری طور پر سی این جی اسٹیشن نہیں کھولے تو سی این جی اسٹیشن مالکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی جس کی ذمہ داری سی این جی اسٹیشن کے مالکان پر عائد ہوگی۔

اطلاعات کے مطابق خطوط ملنے کے بعد سی این جی اسٹیشنوں کو اڑائے جانے کے خوف کے باعث بھاری سیکیورٹی کو تعینات کر دیاگیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد پشاور میں بعض مقامات پر سی این جی اسٹیشن کھل گئے ہیں تاہم رش کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔