ریڈار کے ذریعے حاصل کی جانے والی تصاویر میں ایسی بہت سی چٹانوں اور پرتوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے اندر پانی اور نامیاتی مرکبات منجمد حالت میں موجود ہیں۔
سورج کے قریب واقع سیارے عطارد میں ، جہاں موسم انتہائی گرم ہے ، سائنس دانوں کو شمالی قطبی علاقے میں ، برف کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں، جو ان کے لیے حیران کن اور حوصلہ افزا ہیں۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ عطارد کے شمالی قطبی علاقے میں واقع آتش فشانی چٹانوں کے اندر برف اور کئی دوسرے منجمد نامیاتی مرکبات موجود ہیں۔
سائنس دان گذشتہ 20 برسوں سے طاقت ور دوربینوں کی مدد سے عطارد کی سطح سے متعلق معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کررہے ہیں ، جس میں انہیں وہاں برف کی موجودگی کے اشارے ملےتھے، لیکن انہیں سب سے زیادہ حیرانی یہ جان کر ہوئی کہ گرم سیارے پر منجمد حالت میں نامیاتی مرکبات بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔
عطارد کے مدار میں گردش کرنے والے ناسا کے خلائی راکٹ ’ میسنجر ‘ مشن سے منسلک سائنس دانوں نے کہاہے کہ سیارے پر پائی جانے والی برف اور منجمد نامیاتی مرکبات ، جس کی ظاہری شکل کوئلے یا کولتار جیسی ہے، غالباً لاکھوں سال پہلے شہابیوں اور خلا میں بھٹکتے ہوئے پتھروں اور چٹانوں کے عطارد کی سطح پر ٹکرانے سے وجود میں آئے تھے۔
حالیہ عشروں میں خلا اور نظام شمسی میں فلکیات کے ماہرین کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے اور سائنسی تحقیق کے لیے کئی خلائی مشن روانہ کیے گئے ہیں، جن میں زمین کے قریبی سیارے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی جدید ترین کمپیوٹرائز لیبارٹری ’ کیوراسٹی‘ بھی شامل ہے۔ جو سیارے کی سطح پر چل پھر کر نہ صرف نمونے حاصل کررہی ہے بلکہ ان کا تجزیہ بھی کررہی ہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ کیوراسٹی کی مدد سے انہیں مریخ کے بارے میں مستند معلومات حاصل ہوں گی جن سے وہاں انسان بھیجنے کے مشن میں مدد ملے گی۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ وہ اس صدی کے اختتام سے پہلے مریخ پر انسان اتارنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
عطارد کا مشن ، مریخ سے کافی مختلف ہے اور اس گرم سیارے کے متعلق حالیہ سائنسی شواہد اور معلومات خلائی جہاز ’ میسنجر ‘ کے ذریعے حاصل کی جارہی ہیں۔ ناسا کا سائنس دانوں کا کہناہے کہ میسنجر میں نصب آلات مدار میں گردش کے دوران سیارے کی سطح پر لیز کی شعاعیں پھینکتے ہیں اور اس کے ذریعے وہاں موجود مرکبات کی تعداد، ان کی ساخت اور سائنسی اہمیت کی دیگر معلومات حاصل کرتے ہیں، جنہیں بعدازاں زمینی مرکز پر بھیج دیا جاتا ہے۔
ناسا کے فلکیاتی ماہرین کا کہناہے کہ عطارد کے شمالی قطب میں برف اور منجمد نامیاتی مرکبات کی موجودگی کی مزید تصدیق کمپیوٹرماڈلز اور دیگر ذرئع سے کی گئی جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شدید درجہ حرارت کے باوجود وہاں منجمد مرکبات اور برف موجود ہے۔
عطارد کی سطح پر پائے جانے والے نامیاتی مرکبات کی رنگت مریخ کے مرکبات کے مقابلے میں دوگنا گہری اور سیاہی مائل ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ لاکھوں سال پہلے شہابیوں کے ٹکڑوں اور خلائی گرد اور پتھروں کے عطارد کی سطح سے ٹکرانے اور اس میں شامل ہوجانے سے بنے تھے۔
عطارد کی سطح پر پانی بھی شہابیے اور خلائی چٹانیں اپنے ساتھ لائی تھیں۔ مگر شدید گرمی کے نتیجے میں خلا سے آنے والے اجسام کی سطح میں موجود پانی بخارات بن کر اڑ گیا ، جس سے ان کے بیرونی حصے مزید سخت ہوگئے اور ان کی رنگت سیاہی مائل ہوگئی ۔ بیرونی سطح کے سخت ہونے کی وجہ سے چٹانوں کے اندر موجود پانی محفوظ ہوگیا۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ ریڈار کے ذریعے حاصل کی جانے والی تصاویر میں ایسی بہت سی چٹانوں اور پرتوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے اندر پانی اور نامیاتی مرکبات منجمد حالت میں موجود ہیں۔
عطارد کی سطح کا درجہ حرارت اتنا زیادہ اور موسم اتنا سخت ہے کہ وہاں زمین جیسی زندگی کا امکان مشکل ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ یہ گرم سیارہ اس دور میں بھی ، جب وہاں خلا سے نامیاتی مرکبات اور پانی پہنچا تھا، زندگی کے لیے موزوں نہیں تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ نظام شمسی کے ایک اور سیارے میں پانی اور نامیاتی مرکبات کی موجودگی سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ زمین ، نظام شمسی یا اس کے باہر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی تھی۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ عطارد کے شمالی قطبی علاقے میں واقع آتش فشانی چٹانوں کے اندر برف اور کئی دوسرے منجمد نامیاتی مرکبات موجود ہیں۔
سائنس دان گذشتہ 20 برسوں سے طاقت ور دوربینوں کی مدد سے عطارد کی سطح سے متعلق معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کررہے ہیں ، جس میں انہیں وہاں برف کی موجودگی کے اشارے ملےتھے، لیکن انہیں سب سے زیادہ حیرانی یہ جان کر ہوئی کہ گرم سیارے پر منجمد حالت میں نامیاتی مرکبات بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔
عطارد کے مدار میں گردش کرنے والے ناسا کے خلائی راکٹ ’ میسنجر ‘ مشن سے منسلک سائنس دانوں نے کہاہے کہ سیارے پر پائی جانے والی برف اور منجمد نامیاتی مرکبات ، جس کی ظاہری شکل کوئلے یا کولتار جیسی ہے، غالباً لاکھوں سال پہلے شہابیوں اور خلا میں بھٹکتے ہوئے پتھروں اور چٹانوں کے عطارد کی سطح پر ٹکرانے سے وجود میں آئے تھے۔
حالیہ عشروں میں خلا اور نظام شمسی میں فلکیات کے ماہرین کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے اور سائنسی تحقیق کے لیے کئی خلائی مشن روانہ کیے گئے ہیں، جن میں زمین کے قریبی سیارے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی جدید ترین کمپیوٹرائز لیبارٹری ’ کیوراسٹی‘ بھی شامل ہے۔ جو سیارے کی سطح پر چل پھر کر نہ صرف نمونے حاصل کررہی ہے بلکہ ان کا تجزیہ بھی کررہی ہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ کیوراسٹی کی مدد سے انہیں مریخ کے بارے میں مستند معلومات حاصل ہوں گی جن سے وہاں انسان بھیجنے کے مشن میں مدد ملے گی۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ وہ اس صدی کے اختتام سے پہلے مریخ پر انسان اتارنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
عطارد کا مشن ، مریخ سے کافی مختلف ہے اور اس گرم سیارے کے متعلق حالیہ سائنسی شواہد اور معلومات خلائی جہاز ’ میسنجر ‘ کے ذریعے حاصل کی جارہی ہیں۔ ناسا کا سائنس دانوں کا کہناہے کہ میسنجر میں نصب آلات مدار میں گردش کے دوران سیارے کی سطح پر لیز کی شعاعیں پھینکتے ہیں اور اس کے ذریعے وہاں موجود مرکبات کی تعداد، ان کی ساخت اور سائنسی اہمیت کی دیگر معلومات حاصل کرتے ہیں، جنہیں بعدازاں زمینی مرکز پر بھیج دیا جاتا ہے۔
ناسا کے فلکیاتی ماہرین کا کہناہے کہ عطارد کے شمالی قطب میں برف اور منجمد نامیاتی مرکبات کی موجودگی کی مزید تصدیق کمپیوٹرماڈلز اور دیگر ذرئع سے کی گئی جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شدید درجہ حرارت کے باوجود وہاں منجمد مرکبات اور برف موجود ہے۔
عطارد کی سطح پر پائے جانے والے نامیاتی مرکبات کی رنگت مریخ کے مرکبات کے مقابلے میں دوگنا گہری اور سیاہی مائل ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ لاکھوں سال پہلے شہابیوں کے ٹکڑوں اور خلائی گرد اور پتھروں کے عطارد کی سطح سے ٹکرانے اور اس میں شامل ہوجانے سے بنے تھے۔
عطارد کی سطح پر پانی بھی شہابیے اور خلائی چٹانیں اپنے ساتھ لائی تھیں۔ مگر شدید گرمی کے نتیجے میں خلا سے آنے والے اجسام کی سطح میں موجود پانی بخارات بن کر اڑ گیا ، جس سے ان کے بیرونی حصے مزید سخت ہوگئے اور ان کی رنگت سیاہی مائل ہوگئی ۔ بیرونی سطح کے سخت ہونے کی وجہ سے چٹانوں کے اندر موجود پانی محفوظ ہوگیا۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ ریڈار کے ذریعے حاصل کی جانے والی تصاویر میں ایسی بہت سی چٹانوں اور پرتوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے اندر پانی اور نامیاتی مرکبات منجمد حالت میں موجود ہیں۔
عطارد کی سطح کا درجہ حرارت اتنا زیادہ اور موسم اتنا سخت ہے کہ وہاں زمین جیسی زندگی کا امکان مشکل ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ یہ گرم سیارہ اس دور میں بھی ، جب وہاں خلا سے نامیاتی مرکبات اور پانی پہنچا تھا، زندگی کے لیے موزوں نہیں تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ نظام شمسی کے ایک اور سیارے میں پانی اور نامیاتی مرکبات کی موجودگی سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ زمین ، نظام شمسی یا اس کے باہر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی تھی۔