کراچی کی سمندری حدود بھارت اورایران سے بھی ملتی ہیں بے خیالی میں اکثر مچھیرے ایک دوسرے کی حدود میں پکڑے جاتے ہیں ۔ ایسے میں کئی کئی سال تک وہ اپنے گھروالوں کو دیکھ تک نہیں پاتے۔
کراچی ،پاکستان کا وہ واحدشہر ہے جو سمندر کے کنارے آباد ہے اور یہ پہلو اسے باقی پاکستان کے دیگر شہروں سے منفرد بناتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ کراچی کسی دور میں مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی لیکن یہ چھوٹی سی بستی، بستے بستے آج ملک کے سب سے بڑے شہر کا روپ دھار چکی ہے۔
پاکستان کے مچھیروں کی سب سے بڑی تعداد آج بھی اس شہر میں رہتی ہے۔سمندر کی موجوں پر ہرصبح جال ڈالتے اور شام کو جال سمیٹے مچھیروں کا سب سے زیادہ جمگھٹ آپ کو یہیں نظر آئے گا۔ یہ جال مچھیروں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
مچھلیوں اور جھینگوں کا ان مچھیروں کی زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔ یہ ان کی خوشیوں، شادی بیاہ، روزگاراورخوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔ چالیس سالہ عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ”جس سال ہمارا دھندا صحیح نہیں ہوتا اس سال ہماری شادیاں تک ٹل جاتی ہیں۔ جس طرح ایک کاشتکار کی فصل اچھی ہو تو اس سال اس کی لڑکیوں کی رکی ہوئی شادیاں تک ہوجاتی ہیں اسی طرح جس سال زیادہ ’مچھی‘لگتی ہے وہ سال ہمارے لئے نئی سے نئی خوشیاں لاتا ہے۔“
”جون اور جولائی میں سمندر بہت زیادہ چڑھا ہوا ہوتا ہے ۔ اس سیزن میں مچھلی بہت لگتی ہے اس لئے زیادہ تر مچھیروں کی شادیاں انہی دو مہینوں میں ہوتی ہیں۔ “
عبدالمجید کا خاندانی پس منظر بنگلہ دیش سے جڑاہے لیکن اس نے آنکھ گویا کراچی کے ساحل پر ہی کھولی ہے۔ شکار کب لگے گا، کہاں زیادہ لگے گا اور کس سے ،کس کو ، کتنا فائدہ ہوگایہ مجید کو ازبر ہے۔ مجید کو اس پیشے سے محبت تو ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ اس پیشے میں ”پیسہ “نہیں ہے۔چھوٹی عمر سے کمانے کے باوجود وہ آج تک اپنی زندگی کامعیار بلند نہیں کرسکا ہے۔ سخت سرد ہوا وٴں ، گرمی کی تپیش اور سمندر کے غیر یقینی موسم کے باوجود اسے دو وقت کی روزی روٹی کی فکر کرنا پڑتی ہے۔
عبدالمجید جیسے بہت سے مچھیرے ایسے ہیں جنہیں جوانی میں ہی بڑھاپے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ حاجی ابراہیم بھی انہی میں سے ایک ہیں ۔ انہیں ایک خوف نے گھیر رکھا ہے، وہ ڈرتے ہیں کہ جوانی میں تو ہر ٹھیکیدار انہیں اپنی بوٹ پر سوار کرکے شکار پر لے جانے کا خواہشمند رہتا ہے لیکن بڑھاپے میں کیا ہوگا، کوئی پوچھے گا بھی یا نہیں۔ان کا کہنا ہے ”’سمندر کا نمکین پانی جسم کو گلا دیتا ہے اور انسان عمر سے بڑا نظر آنے لگتا ہے۔‘
مجید کے مطابق مچھیروں کے ساتھ ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بڑی کشتیوں والے ملازم رکھتے ہیں، وہ مچھیروں کو شکار کی تعداد اور کوالٹی کے لحاظ سے پیسے دیتے ہیں جبکہ منافع میں مچھیروں کو شامل نہیں کیا جاتا۔
ایک شکاری کشتی کے کپتان نجیب کا کہنا ہے ”سمندری طوفانوں سے مقابلہ کرنے والے ہم مچھیروں کی زندگی بھی ، تمام عمر اتارچڑھاوٴ کا شکار رہتی ہے۔اچھا سیزن گزرا تو عیش ہوگئے ورنہ نوبت ادھار تک پہنچ جاتی ہے۔“
کراچی کی سمندری حدود بھارت اورایران سے بھی ملتی ہیں بے خیالی میں اکثر مچھیرے ایک دوسرے کی حدود میں پکڑے جاتے ہیں ۔ ایسے میں کئی کئی سال تک وہ اپنے گھروالوں کو دیکھ تک نہیں پاتے۔
حاجی ابراہیم کا کہنا ہے ”کھلے سمندر میں شکار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ کئی کئی دن تک چڑھے ہوئے سمندر کے سبب فاقوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر تنخواہیں بھی کتنی ہیں زیادہ سے زیادہ سات یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ۔ایسے میں جتنے دن بھی سمندر میں رہتے ہیں ، شکار کی ہوئی مچھلی کھانا پڑتی ہے وہ بھی اچھی کوالٹی کی نہیں بلکہ نسبتاً کم معیاری کیوں کہ اچھی مچھلی تو فروخت کرنے کے لئے بچالی جاتی ہے۔ “
نجیب کا کہنا ہے ”ہماری آمدنی بھی موسم کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔طغیانی کے دنوں میں بہت سے مچھیرے شکار پر جانے سے ڈرتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مچھیرے سمندر میں ہوتے ہیں اور طوفان کے آثار پیدا ہوتے ہی بغیر شکار کئے واپس آجاتے ہیں ۔“
آل کراچی فشرمین ویلفئیر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری وحید مغل کے مطابق کراچی ہاربر پر 18,000سے زائد کشتیاں موجود ہیں جن سے ملک کو کروڑوں روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی کے مچھیروں کا معیار زندگی بلند نہیں۔غریب مچھیروں کو کچھ نہیں مل پاتا ۔
پاکستان کے مچھیروں کی سب سے بڑی تعداد آج بھی اس شہر میں رہتی ہے۔سمندر کی موجوں پر ہرصبح جال ڈالتے اور شام کو جال سمیٹے مچھیروں کا سب سے زیادہ جمگھٹ آپ کو یہیں نظر آئے گا۔ یہ جال مچھیروں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
مچھلیوں اور جھینگوں کا ان مچھیروں کی زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔ یہ ان کی خوشیوں، شادی بیاہ، روزگاراورخوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔ چالیس سالہ عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ”جس سال ہمارا دھندا صحیح نہیں ہوتا اس سال ہماری شادیاں تک ٹل جاتی ہیں۔ جس طرح ایک کاشتکار کی فصل اچھی ہو تو اس سال اس کی لڑکیوں کی رکی ہوئی شادیاں تک ہوجاتی ہیں اسی طرح جس سال زیادہ ’مچھی‘لگتی ہے وہ سال ہمارے لئے نئی سے نئی خوشیاں لاتا ہے۔“
”جون اور جولائی میں سمندر بہت زیادہ چڑھا ہوا ہوتا ہے ۔ اس سیزن میں مچھلی بہت لگتی ہے اس لئے زیادہ تر مچھیروں کی شادیاں انہی دو مہینوں میں ہوتی ہیں۔ “
عبدالمجید کا خاندانی پس منظر بنگلہ دیش سے جڑاہے لیکن اس نے آنکھ گویا کراچی کے ساحل پر ہی کھولی ہے۔ شکار کب لگے گا، کہاں زیادہ لگے گا اور کس سے ،کس کو ، کتنا فائدہ ہوگایہ مجید کو ازبر ہے۔ مجید کو اس پیشے سے محبت تو ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ اس پیشے میں ”پیسہ “نہیں ہے۔چھوٹی عمر سے کمانے کے باوجود وہ آج تک اپنی زندگی کامعیار بلند نہیں کرسکا ہے۔ سخت سرد ہوا وٴں ، گرمی کی تپیش اور سمندر کے غیر یقینی موسم کے باوجود اسے دو وقت کی روزی روٹی کی فکر کرنا پڑتی ہے۔
عبدالمجید جیسے بہت سے مچھیرے ایسے ہیں جنہیں جوانی میں ہی بڑھاپے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ حاجی ابراہیم بھی انہی میں سے ایک ہیں ۔ انہیں ایک خوف نے گھیر رکھا ہے، وہ ڈرتے ہیں کہ جوانی میں تو ہر ٹھیکیدار انہیں اپنی بوٹ پر سوار کرکے شکار پر لے جانے کا خواہشمند رہتا ہے لیکن بڑھاپے میں کیا ہوگا، کوئی پوچھے گا بھی یا نہیں۔ان کا کہنا ہے ”’سمندر کا نمکین پانی جسم کو گلا دیتا ہے اور انسان عمر سے بڑا نظر آنے لگتا ہے۔‘
مجید کے مطابق مچھیروں کے ساتھ ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بڑی کشتیوں والے ملازم رکھتے ہیں، وہ مچھیروں کو شکار کی تعداد اور کوالٹی کے لحاظ سے پیسے دیتے ہیں جبکہ منافع میں مچھیروں کو شامل نہیں کیا جاتا۔
ایک شکاری کشتی کے کپتان نجیب کا کہنا ہے ”سمندری طوفانوں سے مقابلہ کرنے والے ہم مچھیروں کی زندگی بھی ، تمام عمر اتارچڑھاوٴ کا شکار رہتی ہے۔اچھا سیزن گزرا تو عیش ہوگئے ورنہ نوبت ادھار تک پہنچ جاتی ہے۔“
کراچی کی سمندری حدود بھارت اورایران سے بھی ملتی ہیں بے خیالی میں اکثر مچھیرے ایک دوسرے کی حدود میں پکڑے جاتے ہیں ۔ ایسے میں کئی کئی سال تک وہ اپنے گھروالوں کو دیکھ تک نہیں پاتے۔
حاجی ابراہیم کا کہنا ہے ”کھلے سمندر میں شکار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ کئی کئی دن تک چڑھے ہوئے سمندر کے سبب فاقوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر تنخواہیں بھی کتنی ہیں زیادہ سے زیادہ سات یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ۔ایسے میں جتنے دن بھی سمندر میں رہتے ہیں ، شکار کی ہوئی مچھلی کھانا پڑتی ہے وہ بھی اچھی کوالٹی کی نہیں بلکہ نسبتاً کم معیاری کیوں کہ اچھی مچھلی تو فروخت کرنے کے لئے بچالی جاتی ہے۔ “
نجیب کا کہنا ہے ”ہماری آمدنی بھی موسم کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔طغیانی کے دنوں میں بہت سے مچھیرے شکار پر جانے سے ڈرتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مچھیرے سمندر میں ہوتے ہیں اور طوفان کے آثار پیدا ہوتے ہی بغیر شکار کئے واپس آجاتے ہیں ۔“
آل کراچی فشرمین ویلفئیر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری وحید مغل کے مطابق کراچی ہاربر پر 18,000سے زائد کشتیاں موجود ہیں جن سے ملک کو کروڑوں روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی کے مچھیروں کا معیار زندگی بلند نہیں۔غریب مچھیروں کو کچھ نہیں مل پاتا ۔