امریکی اخبارات سے: 2014 کے بعد کا افغانستان

فائل فوٹو

اخبار کہتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی آئندہ کی سرگرمیوں اور اُن کی قانونی حیثیت پرسرکردہ امریکی اور افغان عہدہ داروں کے مابین جو مذاکرات رازداری میں ہو ر ہے ہیں ، خیال ہے کہ اُن میں تقریباً ایک سال لگ جائے گا۔
واشنگٹن پوسٹ

امریکہ اور افغانستان کے درمیان سنہ 2014 کے بعد کے دوطرفہ تعلقات پر جاری مذاکرات پر واشنگٹن پوسٹ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی فوج اور پولیس کے کمانڈروں نے بار بار کہا ہے کہ اُنہیں اسلامی انتہا پسند باغیوں کے خلاف قوم کو تحفّظ فراہم کرنے کے لئے ہتھیاروں سے لے کر تربیت کی شکل میں امریکی امداد کی ضرورت رہے گی ۔ اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ افغانستان کی عام پبلک نیٹو افوا ج کی طویل موجودگی سے عاجز ہے۔ اُسے یہ فکر کھائے جا رہا ہےکہ مغربی فوجوں کے واپس جانے کے بعد اُس کا کیا بنے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ بعض مشکلات کے باوجود کابل میں امریکی عہدہ دار پُر اُمید ہیں ، کہ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی کے مذاکرات، عراق کے ساتھ کُچھ امریکی فوجوں کو اس ملک میں رہنے دینے کے بارے میں ایسے ہی مذاکرات کے مقابلے میں ، کامیاب ہونگے ، عراقی حکومت نے ان فوجوں کو عراقی نظام عدل سےاستثنیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ باقیماندہ امریکی فوجیوں کو جلدی میں عراق سے نکلالنا پڑا تھا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران صدر کر زئی کو بھی اصرار رہا ہے کہ سنہ 2014 کے بعدافغانستان میں بھی امریکی فوجوں کو یہ استثنیٰ حاصل نہیں رہے گا۔ مسٹر کرزئی نےاس پر بھی امریکہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اُس نےسرحد پار پاکستان کی جانب سے راکٹ حملوں کے خلاف زور دار کاروائی نہیں کی۔ اُن کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ امریکہ افغانستان میں زیادہ بڑی ہوائی فوج قائم کرنے لے لئے بھی رقم دے۔ پچھلے ماہ مسٹر کرزئی نےامریکہ پراُس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا بھی الزم بھی لگایا تھا ، جس کے تحت افغان قید خانوں اور اُن کے تین ہزار قیدیوں کو ۔ افغان حکومت کےمکمل کنٹرول میں دینا تھا۔

لیکن اخبار نے کئی دُوسرے افغان عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہےکہ حکومت کو اس معاہدے کی اہمیت تسلیم ہے اور وُہ ایک عشرے سے زیادہ کے مغربی فوجی غلبے کے بعد محض اپنے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی آئندہ کی سرگرمیوں اور اُن کی قانونی حیثیت پرسرکردہ امریکی اور افغان عہدہ داروں کے مابین جو مذاکرات رازداری میں ہو ر ہے ہیں ، خیال ہے کہ اُن میں تقریباً ایک سال لگ جائے گا۔

وال سٹریٹ جرنل

اُدھر وال سٹریٹ جرنل کے مطابق صدر کرزئی نے صدر اوباما کو ایک خط میں یہ جتا دیا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ اُس وقت تک سیکیورٹی کا معاہدہ نہیں ہو سکے گا ۔ جب تک امریکہ افغان شہریوں کو اپنی قید میں رکھے گا۔جو اخبار کی نظر میں اس ملک میں امریکی فوجوں کی طویل وقتی موجودگی پر مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس خط کے ایک اقتبا س کے مطابق افغانستان کے لوگ اپنی سرزمین پر قید خانوں اور گرفتاریوں پر غیر ملکیوں کے اختیار کو اپنی قومی حاکمیت اعلیٰ کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں، جس کے ہوتے ہوئے امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی معاہدہ نہیں ہو سکے گا۔

تاہم امریکی عہدہ دار کو اصرار ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور وُہ ایک معاہدہ ہوجانے کے بارے میں پُر امید ہیں۔

اخبار کہتا ہے ۔ کہ اعلیٰ امریکی مذاکرات کار ، جیمز وارلٕک مذاکرات کے دوسرے دور کے لئےاسی ماہ کابل پہنچ رہے ہیں۔

کرسچن سائنس مانیٹر

کیا ایران پر فوجی حملہ ہوگا، اس پر کرسچن سائنس مانیٹر میں سکاٹ پیٹرسن ایک تجزئے میں کہتے ہیں کہ عراق پر امریکی فوجی حملے کے نو برس بعد سی آئی اے نےعراق کے وسیع پیمانے کی تباہی لانے والے عراقی ہتھیاروں کےبارے میں کی جانے والی غلطیوں کا جو تجزیہ کیا تھا، ان سے عبارت بُہت سے اسباق کا، ایسے میں، جب ایک اور جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں، ایران پر اطلاق ہوتا ہے۔ عراق کے بار ے میں انٹلی جنس کی ناکامی سب کو معلوم ہے ۔ اور یہ توقع کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کا ایک خطرناک ذخیرہ ہے یا اُس کے نئے جوہری عزائم ہیں۔ قطعی طور پر ایک واہمہ ثابت ہوئی تھی۔

پیٹرسن کا سوال ہے کہ ہمیں ایران کے بارے میں کیا کچھ معلوم ہےیہ صحیح ہے کہ امریکی یا اسرائیلی حملے سے اپنے کو بچانے کے لئے ایران اپنی فوجی استعداد کا مظاہرہ اور جنگی مشقیں کرتا رہتا ہے۔ واشنگٹن اور تل ابیب سے فوجی کاروائی کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں اور امریکہ کی قیادت میں ایرانی معیشت کے خلاف سنگین اقتصاری تعزیرا ت لگا دی گئی ہیں۔ لیکن واشنگٹن کے انٹرنیشنل کرائی سٕس گروپ کے ایرانی ماہر ، علی واعظ کہتے ہیں کہ نیشنل انٹلی جنس ایسٹیمیٹ کے اس تخمیے سے کہ ایران نے سنہ 2003 میں اپنا با ترتیب خُفیہ جوہری پروگرام روک دیا تھا ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی انٹلی جنس نتائج اخذ کرنے میں احتیاط برتتی ہے۔