متازعہ کشمیر میں جنگ بندی لائن پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان حالیہ کشید گی کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
پاکستانی کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ اس سال اکتوبر کے مہینے تک پندرہ لاکھ ملکی سیاح پاکستانی کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات کی سیرکو آئے جن میں سے نصف نے جنگ بندی لائن پر واقع وادی نیلم کی سیر کی تھی۔
لیکن ستمبر کے مہینے میں بھارتی کشمیر میں اوڑی میں واقع ایک فوجی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے مبینہ حملے میں اٹھارہ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جنگ بندی لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ شروع ہو گیا اور سیاحت کے لئے مشہور وادی نیلم اور تتہ پانی کے علاقے بھی اس کی زد میں آئے جس کی وجہ سے انتظامیہ کی طرف سے تحفظ کے پیش نظر سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی جو تاحال جاری ہے۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے محکمہ سیاحت کے ناظم اعلی خواجہ محمد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی کی وجہ سے سیاحوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اور بلخصوص نیلم ویلی میں ایک سیاحتی آرام گاہ پر گولہ باری سے سیاحت کو شدید دھچکا لگا۔
خواجہ نعیم نےخدشہ ظاہر کیا کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی کی وجہ سے سیاحوں میں پائی جانے والی غیریقینی کی وجہ سے آئندہ موسم گرما میں بھی سیاحوں کی آمد متاثر رہے گی کیونکہ پاکستان سے آنے والا سیاح کسی ایک علاقے میں کشیدگی کو عمومی صورت حال پر قیاس کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ کنٹرول لائن پرکشیدگی کے پیش نظر حکومت کنٹرول لائن سے دور محفوظ سیاحتی مقامات کو متبادل کے طور پر سیاحوں کے لئے کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
دارالحکومت مٖظفرآباد کے شمال میں واقع تقریبا دو سو کلو میٹرلمبی وادیِ نیلم کشمیر کو تقسیم کر نے والی جنگ بندی لائن پر واقع ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان 2003 میں کنٹرول لائن پر ہو نے والے سیز فائر کے معاہدے کے بعد حالیہ مہینوں میں ہو نے والی کشیدگی تک سیاحوں کی دلچسی کا مرکز بنی رہی۔
خیال رہے کہ پاکیستان کے زیر انتظام کشمیر کا زیادہ تر علاقہ جنگلات،پہاڑوں، جھیلوں دریاوں اور ندی نالوں پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے سیاحوں کے لئے دلچسبی کا باعث ہے لیکن غیر ملکی سیاحوں کو اس علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ حکام سیکورٹی خدشات بتاتے ہیں۔