سی آئی اے کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ اُس کی رہائی میں اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی اور امریکی فارن ریلیشنز کمیٹی کے اُس وقت کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ جان کیری نے اہم کردار ادا کیا تھا تاہم اس میں چند مزید لوگوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا جن میں سی آئی اے کے اُس وقت کے ڈاریکٹرجارج ٹینٹ ، امریکی سفیر منٹر اور اُس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری بھی شامل تھے۔
’’دا کانٹریکٹر: میں پاکستانی جیل میں کیسے پہنچا اور کس طرح ایک سفارتی بحران برپا ہو گیا‘‘ کے عنوان سے اپنی حالیہ کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے بہت سے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں اور 49 دن کی قید سے رہائی تک کی داستان بیان کرتےہوئے اُن تما م پاکستانی اور امریکی بااثر افراد کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا ہے جنہوں نے اُن کی رہائی میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔ کتاب میں ریمنڈ نے بتایا ہے کہ اُن کی رہائی ایک اجتماعی کوشش کا نتیجہ تھی۔
اس کتاب میں دیگر باتوں کے علاوہ تجربہ کار امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح اُنہیں سیاسی شطرنج کے ایک مہرے کی طرح استعمال کیا گیا جس میں خطرات اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکی فوج نے پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لاڈن کو مارنے کا منصوبہ نہ بنایا ہوتا تو وہ شاید اب بھی پاکستانی جیل میں سڑ رہے ہوتے۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنے شریک مصنف سٹامز ریبیک کے ساتھ مل کر لاہور میں پیش آنے والے واقعے اور اُن کی رہائی تک کے واقعات کی نہایت ڈرامائی انداز میں منظر کشی کی ہے۔ واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑی میں ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے تھے جب موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے گاڑی کے باہر سے اُن پر پستول تان لی تھی۔ لہذا اُنہوں نے اپنے دفاع میں اُن پر گولی چلا دی جس سے وہ دونوں افراد محمد فہیم اور فیضان حیدر موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ ریمنڈ ڈیوس کو اسی دن گرفتار کر کے اُن پر 302 کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ اُنہیں پہلے فوجی چھاؤنی لیجایا گیا اور بعد میں کوٹ لکھ پت جیل منتقل کر دیا گیا۔
ریمنڈ لکھتے ہیں کہ اُنہی دنوں ایبٹ آباد میں مقیم اسامہ بن لادن کو مارنے کا منصوبہ تیار کیا گیا اور امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ اس واقعے کے بعد اگر ریمنڈ ڈیوس پاکستانی حراست میں رہے تو رد عمل کے طور پر اُنہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ لہذا امریکی حکومت نے اُن کی رہائی کیلئے کوششیں تیز کر دیں۔ اس مقصد کیلئے امریکہ میں اُس وقت کے فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین جان کیری کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جو امریکہ میں اُس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کے ہمراہ پاکستان پہنچے جہاں اُن دونوں نے لاہور میں موجودہ وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف سے ملاقات کی جس میں حسین حقانی اور جان کیری نے ریمنڈ کی رہائی کا منصوبہ تیار کیا۔ اس سلسلے میں اُس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ یوں پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ مکمل طور پر رہائی کی ان کوششوں میں شریک تھی۔
اس دوران امریکی صدر اوباما نے سی آئی اے کے سربراہ کو طلب کر کے پوچھا کہ ریمنڈ کی رہائی کا کیس دو ماہ سے کیوں لٹکا ہوا ہے؟ اس کے بعد سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کو امریکہ بلایا اور آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں ملاقات کے دوران اُن سے کہا، ’’اگر ریمنڈ کو کچھ ہوا تو ہم آپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔‘‘
پاکستان واپسی کے بعد جنرل پاشا اپنی ٹیم کے ہمراہ دونوں مقتولین کے گھر گئے اور اُنہیں یہ کیس رفع دفع کرنے کیلئے 23 کرور روپے کی پیشکش کی۔ کہا جاتا ہے ابتدائی طور پر دونوں مقتولین کے اہل خانہ نے یہ رقم قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اُن پر شدید دباؤ ڈالا گیا اور بالآخر وہ قصاص اور دیت کے قانون کے تحت یہ رقم وصول کر کے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر آمادہ ہو گئے۔ اُنہیں یہ رقم فوری طور پر ادا کر دی گئی۔ یہ رقم آئی ایس آئی نے ادا کی تھی جسے بعد میں امریکہ نے کسی اور مد میں لوٹا دیا تھا۔
اپنی رہائی کے دن کمرہ عدالت کی منظر کشی کرتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ اُنہیں آخری لمحوں تک اپنی رہائی کی اُمید نہیں تھی اور ایک تجربہ کار جاسوس ہونے کے ناطے وہ ذہنی طور پر اس بات کیلئے تیار تھے کہ اُنہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں ایک پنجرے میں بند کر کے کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا اور جج کے سامنے بٹھایا گیا۔ جب وہ کمرہ عدالت میں موجود تھے تو دونوں مقتولین کے ورثا وقتاً فوقتاً اُن کے قریب آ کر اُردو میں کچھ بولتے ، جو وہ سمجھ نہیں پائے تھے۔ تاہم یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ مرد وں کا رویہ کچھ نرم تھا اور وہ اُنہیں معاف کرنے کے حق میں تھے جبکہ عورتیں بہت غصے میں تھیں۔
کمرہ عدالت میں جنرل پاشا بھی موجود تھے جو عدالت کی تمام کارروائی کے بارے میں امریکی سفیر منٹر کو مسلسل ٹیکسٹ کر کے بتاتے رہے۔ جب جج نے کہا کہ وہ آزاد ہیں تو ریمنڈ کو یقین نہ آیا۔ پھر آئی ایس آ ئی کی ایک گاڑی میں ریمنڈ کو جان کیری، حسین حقانی اور امریکی سفیر منٹر کے ہمراہ براہ راست ہوائی اڈے لیجایا گیا اور جہاز میں سوار کرا دیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ تمام لوگ اُس وقت تک شدید گھبراہٹ میں مبتلا تھے جب تک کہ جہاز پاکستانی حدود سے باہر نہیں نکل گیا۔اسی وقت سفیر منٹر نے اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کو فون کر کے حالات سے آگاہ کیا۔ ہلری کلنٹن نے خود ریمنڈ ڈیوس سے بات کرتے ہوئے کہا ، ’’ریمنڈ! ہمیں آپ پر فخر ہے۔‘‘
امریکہ پہنچنے کے بعد ریمنڈ نے یہ جانا کہ دونوں مقتولین کے خاندانوں میں اُن کی جان بخشی کیلئے بھاری رقم وصول کرنے پر بہت جھگڑا ہوا اور اس میں دو تین افراد قتل بھی ہوئے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت اور اُس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی یہ کہتے آئے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔