امریکی ریاست ایلونوئے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص پر ایک چینی طالبہ کو اغوا کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
حکام کا خیال ہے کہ ایلونوئے یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبہ کی اب موت واقع ہو چکی ہے۔
حکام نے مشتبہ شخص پر الزام عائد کیا ہے کہ اپریل میں 'ابڈکشن (اغوا) 101" نامی ویب سائیٹ تک رسائی کے لیے اس کا فون استعمال ہوا تھا۔
ینگینگ زہانگ جو چین میں ایک فیکٹری میں کام کرنے والے شخص کی بیٹی ہیں، 9 جون کو لاپتا ہو گئی تھیں۔ اس واقعے سے چند ہفتے پہلے ہی وہ یونیورسٹی آف ایلونوئے میں پہنچی تھیں جہاں وہ زرعی علوم میں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔
وفاقی حکام کا کہنا ہے کہ 28 سالہ برینڈٹ کرسٹینسن نے زہانگ کو اس وقت مبینہ طور پر اغوا کیا جب وہ یونیورسٹی کیمپس کے قریب ایک بس سے اتری تھیں۔
ایک وڈیو میں انہیں ایک کالے رنگ کی گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے ایک اہلکار اینتھونی مینگانارو کی طرف سے وفاقی عدالت میں جمع کروائے گئے بیان کے مطابق کرسٹینسن جمعرات سے زیر نگرانی تھا کیونکہ اہلکاروں نے اس کو زہانگ کو اغوا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا۔
حکام کا کہنا ہے اس بات اور تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زہانگ زندہ نہیں ہے۔
جمعہ کو جب حکام سے یہ استفسار کیا گیا کہ کیا زہانگ کی لاش کی نشاندہی کر لی گئی ہے تو ایف بی آئی کے ترجمان اسپرنگ فیلڈ بریڈلے ویر نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
یونیورسٹی آف ایلونوئے کے چانسلر رابرٹ جونز نے ایک بیان میں کہا کہ کیمپس کی برادری کو یہ خبر سن کر دکھ اور افسوس ہوا ہے کہ یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ زہانگ کی موت واقع ہو چکی ہے۔
"اگرچہ ہم اس کے خاندان کے دکھ درد کو کم کرنے کے لیے تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہم سب مل کر کسی بھی طور اس مشکل وقت میں ان کی مدد کریں گے۔"
وہ لوگ جو زہانگ کو جانتے تھے ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت ہی لائق اور اس کا رویہ دوستانہ ہوتا تھا۔ زہانگ کے دوست نے کہا کہ وہ بہت ہی احتیاط کرتی تھیں۔
زہانگ نے گزشتہ سال چین کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی سے ماحولیاتی انجینئرنگ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔