بھارتی سپریم کورٹ نے ممبئی کی ایک 13 سالہ لڑکی کو، جسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اسقاط حمل کی اجازت دے دی ہے۔
لڑکی 32 ہفتے کے حمل سے تھی، اور اسے اسقاط کے لیے عدالتی منظوری کی درکار تھی کیونکہ بھارتی قانون کے تحت 20 ہفتوں کے حمل کے بعد اسے گرانے کا اجازت نہیں ہے۔
اس مقدمے کی سماعت اتنا زیادہ وقت گذرنے کے بعد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لڑکی کے والدین کو اس کے حاملہ ہونے کا پتا اس وقت چلا جب حمل کو29 ہفتے گذر چکے تھے۔
خبروں میں بتایا گیا ہے کہ لڑکی کا جسم اور پیٹ پھولنے پر والدین کو تشویش ہوئی اور وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ والدین کو خدشہ تھا وہ کسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہو چکی ہے۔ تاہم طبی معائنے سے اس کے حاملہ ہونے کا انكشاف ہوا۔
قانونی ضرورتوں کی وجہ سے لڑکی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ لیکن حکام نے یہ بتایا ہے کہ لڑکی کو اس کے والد کے ایک دوست نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جسے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
عدالت میں ڈاکٹر نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں لڑکی کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے محض چند روز پہلے جنسی زیادتی کے ایک اور مقدمے میں عدالت نے ایک 10 سالہ بچی کو اسقاط حمل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس مرحلے پر اسقاط بچی کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
بعد ازاں بچی نے چندی گڑھ میں ایک بچے کو جنم دیا جسے ایک ضرورت مند جوڑے کو گود دے دیا گیا۔
دس سالہ بچی سے یہ بات پوشیدہ رکھی گئی وہ ماں بن گئی ہے اور اسے یہ بتایا گیا کہ اس کے پیٹ میں موجود رسولي کو آپریشن کر کے نکال دیا گیا ہے۔
لڑکی سے اس کے چچا نے متعدد بار جنسی زیادتی کی تھی۔ اب وہ پولیس کی حراست میں ہے۔
اس طرح کے واقعات کے بہت تاخیر سے منظر عام پر آنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر بھارتی لڑکیوں کو حمل کے مراحل اور علامتوں کا علم نہیں ہوتا اور اکثر والدین بھی یہ سوچ نہیں سکتے کہ اتنی کم عمری میں کوئی لڑکی حاملہ ہو سکتی ہے۔