بھارت نے سات روہنگیا مسلمانوں کو ان کے وطن میانمار واپس بھیج دیا۔ یہ لوگ 2012 میں غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوئے تھے اور انھیں اسی وقت سے آسام کی کچار سینٹرل جیل میں رکھا گیا تھا۔
آسام کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل، بارڈر سیکورٹی، بھاسکر جے مہنتا نے بتایا کہ ان نوجوانوں کو منی پور میں مورے سرحدی چوکی پر میانمار کے حکام کے حوالے کیا گیا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ میانمار نے اس کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس کے شہری ہیں اور رخائن صوبے کے باشندے ہیں۔ میانمار کے سفارتکاروں کو ان باشندوں تک رسائی دی گئی اور انھوں نے ان تارکین وطن کی شناخت کی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت عظمیٰ میں ایک عرضی داخل کر کے حکومت کے اس اقدم کو روکنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
عدالت نے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس موجود دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ یہ میانمار کے ہیں اور انھیں واپس بھیجا جانا چاہیے۔ اس نے حکومت کی دلیل تسلیم کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کیا۔
یہ پہلا موقع ہے جب میانمار کے تارکین وطن کو واپس بھیجا گیا ہے۔
زکوة فاونڈیشن آف انڈیا کے چیئرمین اور دہلی میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادکاری میں سرگرم سید ظفر محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سفارتی نہیں بلکہ حکومت کا سیاسی فیصلہ ہے اور ا سکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر حکومت کی دلیل تسلیم کی جائے تو ہندوستان میں جو روہنگیا پناہ گزیں ہیں ان سب کو اور بنگلہ دیش میں جو آٹھ لاکھ ہیں ان کو بھی ڈیپورٹ کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق حکومت کے اس فیصلے کا مقصد رائے دہندگان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے تاکہ اسی بہانے کچھ ووٹ مل جائے۔
اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد اقوام متحدہ نے بھارت کے اس قدم پر سخت نکتہ چینی کی اور اسے بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا۔
اقوامِ متحدہ کے ایک نمائندہ نے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی حکومت کی یہ بین الاقوامی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ادارہ جاتی امتیاز، مظالم اور نفرت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کو تسلیم کرے، جس کا ان افراد کو ان کے ملک میں سامنا ہے اور انھیں ضروری تحفظ فراہم کرے۔
بھارت میں 40 ہزار روہنگیا پناہ گزین ہیں جن میں سے 16 ہزار اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین سے رجسٹرڈ ہیں۔