اگرچہ عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد گروپ داعش کی کمر تو ٹوٹ چکی ہے لیکن بظاہر وہ ابھی تک غیر قانونی طور پر تیل بیچنے اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں سے رقم کمانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
عراق اور شام کے چند علاقوں میں اپنی نام نہاد خلافت کے اختتام سے پہلے، دہشت گرد گروپ داعش نے تیل بیچنے، قدیم قیمتی نوادرات کی چوری اور مقامی آبادی پر ٹیکس عائد کر کے لاکھوں، بلکہ کروڑوں ڈالر حاصل کئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سنی دہشت گرد گروپ اب اپنی باغیانہ سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کر رہا ہے۔
نیویارک میں قائم تھنک ٹینک، سوفان سینٹر سے منسلک کولن پی کلارک کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس گروپ کی آمدن کا بڑا ذریعہ ڈاکہ زنی، چوری اور اغوا برائے تاوان سمیت اسی طرح کی غیر قانونی سرگرمیاں رہیں گی۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے محکمہ خارجہ نے تیل یا آثارِ قدیمہ کے نوادرات یا اسی قسم کی دیگر اشیا کی فروخت یا تجارت کی اطلاع دینے والے کو پانچ ملین ڈالر انعام کی رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے اِس سال اکتوبر میں لگائے گئے ایک اندازے کے مطابق، داعش کے پاس اس وقت ایک سو ملین ڈالر کا سرمایہ موجود ہے۔
کرد کسان موفق حاجی رشید کی گزشتہ چھ ماہ سے یہ سوچ کر نیندیں حرام ہو گئی تھیں کہ شاید وہ اپنے 23 سالہ بیٹے کو دوبارہ نہیں دیکھ سکے گا۔
اس اذیت کا آغاز اس سال مئی میں عید کے موقع پر ہوا، جب داعش کے عسکریت پسندوں نے ان کے بیٹے دیلان موفق رشید اور اس کے 22 سالہ ساتھی عیسیٰ طحہ کو تیل سے مالا مال صوبے کرکک سے اِغوا کر لیا تھا۔ وہ دونوں وہاں بجلی کے کھمبوں کی حفاظت کیلئے فیڈرل سیکیورٹی گارڈ کے طور پر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔
صوبہ کرکک ان متنازع علاقوں میں شامل ہے جسے عراق کی مرکزی حکومت اور کردستان ریجنل گورنمنٹ دونوں اپنا اپنا علاقہ تصور کرتے ہیں۔ تاہم مبصرین کے نزدیک یہ وہ علاقہ ہے جو حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں داعش کا مرکز بن چکا ہے۔
دیلان کے والد موفق کی پریشانی کی خاص وجہ یہ تھی کہ داعش نے ماضی میں کرد پیشمرگا نسل کے افراد کیلئے کم ہی رحم دکھایا تھا۔ داعش اپنے پروپیگنڈا ویڈیوز میں دنیا کو ڈرانے کیلئے ان کے سر قلم کرتے ہوئے دکھاتی تھی۔ یہ سزا ان لوگوں کے لیے تھی جو امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں۔
تاہم جون میں ایک اچھی خبر آئی۔ موفق رشید کو جون میں ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی، جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کا بیٹا اپنے ساتھی کے ہمراہ ان کی قید میں زندہ ہے اور دونوں کو اس صورت میں چھوڑا جا سکتا ہے اگر ان کے خاندان ڈیڑھ لاکھ ڈالر تاوان ادا کریں۔
جہاں موفق رشید کو یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ان کا بیٹا زندہ ہے وہاں وہ داعش کے مطالبے کے سلسلے میں وہ شکوک و شبہات کا شکارتھے۔ نہ صرف یہ کہ تاوان کی رقم بہت زیادہ تھی بلکہ یہ بھی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ رقم حاصل کرنے کے بعد، دہشت گرد گروپ واقعی ان کے بیٹے اور ساتھی کو چھوڑ دے گا۔
موفق نے وائس آف امریکہ کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ہم ان کا یقین نہیں کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ کہیں وہ رقم لینے کے بعد ہمارے بیٹے کو قتل نہ کر دیں، لیکن ہمارے پاس ان کی بات ماننے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اغوا ہونے والوں کے خاندانوں نے بہرحال مطالبے کی پوری رقم ادا نہیں کی۔ کوئی درجن بھر فون کالوں کے دوران مذاکرات ہوئے، جس میں بار بار داعش نے ان کے بیٹے اور اس کے ساتھی کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ بالآخر 29 نومبر کو 40 ہزار ڈالر کے عوض، داعش نے دونوں کو چھوڑنے کی حامی بھر لی۔
موفق رشید کہتے ہیں کہ ان کےخاندان اور دوستوں نے یہ رقم اکٹھی کرنے میں ان کی مدد کی۔
رقم وصول کرنے کے کوئی دو گھنٹے بعد، اغوا ہونے والے دونوں افراد کو پاتک کے علاقے میں واقع زنانہ گاؤں میں چھوڑ دیا گیا۔ موفق کہتے ہیں کہ کرد سیکیورٹی فورسز نے وہ علاقہ ڈھونڈنے میں ان کی مدد کی جہاں دونوں کو رہا کیا گیا تھا۔
تاہم وائس آف امریکہ نے تاوان کی ادائیگی کی تصدیق کے لیے کردش ریجنل گورنمنٹ سے رابطہ کیا، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
عالمی سطح پر، اپنے عزیزوں کوچھڑانے کیلئے دہشت گرد گروپوں کو تاوان کی رقم ادا کرنے کے سلسلے میں مختلف ممالک کی پالیسی منقسم ہے۔
مثال کے طور پر امریکی حکومت دہشت گردوں کو تاوان کی رقم ادا کرنے کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔ جب کہ کئی دیگر مغربی ممالک جیسے فرانس، سپین، اٹلی اور جرمنی نے مبینہ طور پر اپنے شہریوں کو چھڑانے کیلئے دہشت گردوں کو لاکھوں ڈالر ادا کئے ہیں۔