بھارت کی جنوب مغربی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کا تنازع ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ کرناٹک میں دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم بجرنگ دل کے ایک کارکن کی ہلاکت نے کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق کرناٹک کے شہر شیو موگا میں اتوار کی شب نا معلوم افراد نےایک 26 سالہ شخص ہرشا کو قتل کر دیا تھا۔ مقتول تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کے خلاف احتجاج میں شامل تھا۔
پولیس کے مطابق ہرشا کے قتل کے واقعے کے بعد شہر میں متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
انتظامیہ نے شہر میں دفعہ144 نافذ کرتے ہوئے شہر کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں جب کہ پولیس نے ہرشا کے قتل کے شبہے میں تین افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
کرناٹک کے دیہی ترقی کے وزیر کے ایس ایشورپا نے ایک ٹوئٹ میں الزام لگایا ہے کہ" ہرشا کو مسلم غنڈوں نے قتل کیا ہے۔"
ریاست کے وزیرِ داخلہ اراگا جنانیندر نے کہا ہے کہ اس واقعے کا حجاب تنازع سے کوئی تعلق نہیں، اس کی دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ شیو موگا فرقہ وارانہ اعتبار سے ایک حساس شہر ہے۔ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ بسو راج بومئی نے کہا ہے کہ پولیس کو اس معاملے میں کچھ سراغ ملے ہیں اور وہ تحقیقات کر رہی ہے۔
SEE ALSO: کیا بھارت میں حجاب تنازع ملک گیر تحریک میں بدل رہا ہے؟بجرنگ دل کے ریاستی صدر رگھو سکلیش پور نے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے پولیس کی کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں اگلےلائحہ عمل کا فیصلہ جلد کیا جائے گا۔
ہرشا کے قتل کے معاملے پر حکمرا ں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن کانگریس میں الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
دیہ ترقی کے وزیر ایس ایشورپا نے الزام عائد کیا کہ کانگریس کے ریاستی صدر ڈی کے شیو کمار نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ ایک تعلیمی ادارے میں قومی پرچم اتار کر زعفرانی پرچم لہرایا گیا اور یہ کہ حجاب کے خلاف احتجاج کے لیے ایک فیکٹری کو 50 لاکھ زعفرانی شالیں بنانے کا آرڈر دیا گیا۔
شیو کمار نے ان کے الزام کی تردید کی اور بی جے پی سے مطالبہ کیا کہ انہیں کابینہ سے برطرف کر دیا جائے۔
'پے درپے واقعات نے صورتِ حال کو کشیدہ بنا دیا'
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حجاب تنازع، بجرنگ دل کے کارکن کے قتل اور اس سے قبل احمد آباد کی ایک خصوصی عدالت کی جانب سے احمد آباد بم دھماکے کیس میں 38 ملزموں کو سزائے موت کے فیصلے نے صورت حال کو مزید حساس اور کشیدہ بنا دیا ہے۔
ان کے مطابق اس بات کا اندیشہ ہے کہ دائیں بازو کے افراد جہاں بجرنگ دل کی ہلاکت کو حجاب کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار بنانے کی کوشش کریں گے وہیں وہ احمد آباد فیصلے کے بعد دہشت گردی کا مسئلہ اٹھا کر مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔
یاد رہے کہ اس وقت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات جاری ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی کامیابی کی کوشش کر رہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق ریاست اترپردیش سب سے اہم ریاست ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ، بی جے پی صدر جے پی نڈا اور دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلی وہاں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کا خیال ہے کہ احمد آباد فیصلے سے بی جے پی کو اپنی مہم کو مزید تیز کرنے کا ایک موقع مل گیا ہے اور اب بی جے پی کے راہنما اس فیصلے کی روشنی میں ہندوؤں کے ایک طقبے کو مسلمانوں کا خوف دکھا کر اپنے حق میں متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے بھی بی جے پی پر فرقہ وارانہ ایشوز پر الیکشن لڑنے اور مذہب کا سہارا لینے کے الزامات لگتے رہے ہیں جس کی بی جے پی کی جانب سے سخت انداز میں تردید کی جاتی رہی ہے۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ ترقی کے ایجنڈے پر الیکشن لڑتی ہے اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتتی۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بجرنگ دل کے کارکن کے قتل کا حجاب معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔ جو لوگ حجاب پر اصرار کر رہے ہیں وہ قانونی اور جمہوری لڑائی لڑ رہے ہیں۔
ان کے بقول اس وقت ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے یہ افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ ہرشا کا قتل حجاب تنازع کی وجہ سے ہوا ہے۔
مودی کی سماجوادی پارٹی پر تنقید
ادھر وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو اترپردیش کے ہردوئی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن اور بالخصوص سماجوادی پارٹی پر الزام عائد کیا تھا کہ دہشت گردی کے تئیں اس کا رویہ نرم ہے۔
انہوں نے بم دھماکوں کے واقعات کے سلسلے میں سماجوادی پارٹی کے انتخابی نشان سائیکل کے حوالے سے کہا تھا کہ سماجوادی کا انتخابی نشان سائیکل ہے اور شروع میں بم دھماکے سائیکلوں کے ذریعے ہی کیے جاتے تھے۔
انہوں نے دہشت گردی کے دیگر واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بھی سماجوادی پارٹی پر تنقید کی۔
دوسری جانب سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے وزیراعظم نریندر مودی کی تنقید کے جواب میں کہاہے کہ سائیکل کی توہین پورے ملک کی توہین ہے۔ ان کے بقول سائیکل کسانوں کو ان کے کھیت اور بیٹیوں کو اسکول تک لے جاتی ہے۔ سائیکل دیہی علاقوں میں عام آدمی کی سواری ہے۔ اس سے خوشحالی آتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ احمدآباد کی عدالت کے فیصلے کے بعد دائیں بازو کے لوگوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مہم تیز کر دی ہے اور اشاروں اشاروں میں مسلمانوں کو بھی ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے مذکورہ فیصلے کے بعد بی جے پی راہنماؤں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات کے حوالے سے کہا کہ انتخابات میں بی جے پی کو مشکلات درپیش ہیں اور اس نے جتنے بھی مسائل اٹھائے تھے اس میں ناکام رہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اب دہشت گردی کے معاملے کو انتخابی ایجنڈا بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے بقول وزیر اعظم نے سا ئیکلوں میں بم نصب کرنے کے بہانے سماجوادی پارٹی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جو کوشش کی ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
ان کے بقول سب جانتے ہیں کہ سماجوادی پارٹی یا کانگریس وغیرہ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ میڈیا اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں میں الزام لگایا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی تشدد پسند جماعتیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مالیگاؤں، مکہ مسجد اور اجمیر بم دھماکے سے بی جے پی کا تعلق رہا ہے۔ ان معاملات میں آر ایس ایس کے لوگوں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ اور سوامی اسیمانند قابل ذکر ہیں۔
ان کے مطابق بی جے پی نے دہشت گردی کے مقدمات کی ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو پارلیمنٹ کا رکن بنوایا ہے جب کہ دوسری جماعتوں پر یہ الزام نہیں۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں سیاسی بدنیتی کی وجہ سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے تھے لیکن وہ الزامات عدالت میں تاحال ثابت نہیں ہو سکے۔
تسلیم رحمانی نے یہ بھی کہا کہ احمد آباد کی ایک ذیلی عدالت نے 38 ملزموں کو سزائے موت کا جو فیصلہ سنایا ہے وہ اپنے آپ میں ایسا پہلا فیصلہ ہے جس میں اتنے لوگوں کو سزائے موت ہوئی ہے۔
ان کے مطابق گجرات کی ذیلی عدالتوں کے ایسے فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں کالعدم کر دیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ سزائے موت کے فیصلوں میں بھی لوگ باعزت بری ہوچکے ہیں۔