اقوام متحدہ کی 193 رکن ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز یوکرین کے بحران کے حل اور روس کو اس کی ’’یوکرین کے خلاف جارحیت‘‘ پر تنہا کرنے کے مقصد کے لیے منعقد ہوا۔اجلاس میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ روس یوکرین سے اپنی افواج واپس بلائے۔
جنرل اسمبلی اس ہفتے اس قرار داد سے مماثل ڈرافٹ پر ووٹنگ کرے گی جسے جمعے کے روز سیکیورٹی کونسل میں روس نے ویٹو کر دیا تھا۔ مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ یہ قرارداد جسے منظور ہونے کے لیے دو تہائی حمایت کی ضرورت ہے، منظور ہو جائے گی۔
اگرچہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل لازمی نہیں ہوتا لیکن ان کا سیاسی اثر ہوتا ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف اقوام متحدہ کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یوکرین پر حملے کے بعد روس عالمی طور پر تنہا رہ گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبر رساں ادارے رایئٹرز کے مطابق پیر کے روز سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ اس قرارداد کے اس وقت تقریباً80 مشترکہ سپانسر موجود ہیں اور جنرل اسمبلی میں سو سے زائد ممالک کے نمائندے خطاب کریں گے۔
فرانسیسی سفیر نکولاس ڈی رویرا نے ایک بیان میں کہا کہ کوئی بھی صرف نظر نہیں کر سکتا، غیر حاضری کوئی آپشن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ روس اور یوکرین کے حکام کے درمیان سیز فائر کے مذاکرات پیر کے روز ناکام ہو چکے ہیں۔
پوٹن کا جوہری فورسز کو تیار رہنے کا حکم پاگل پن ہے، یوکرین
اس سے پہلے یوکرین کے اقوام متحدہ میں سفیر سرگئی کسلسٹسا نے نیوکلئیر فورسز کو تیار رہنے کے پوٹن کے حکم کو ''پاگل پن'' سے تشبیہ دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پوٹن خود کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو انہیں نیوکلئیر ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ وہی کر سکتے ہیں جو 1945 میں برلن کے بنکر میں بیٹھ کر ایک شخص نے کیا تھا۔ ان کا اشارہ رڈولف ہٹلر کی جانب تھا۔
یوکرین میں اقدامات اس پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں ہیں، روس
اقوام متحدہ کے لیے روس کے سفیر وسالی نبینزا نے روس کے یوکرین میں اقدامات کے بارے میں کہا ہے کہ انہیں توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق روس کی فوج یوکرین کے شہریوں کے لیے خطرہ نہیں ہے اور نہ وہ انہیں نشانہ بنا رہی ہے۔ روس کا موقف ہے کہ یوکرین میں اس کے اقدامات یوکرین پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ اس کی عسکری صلاحیتیں ختم کرنے، اور بقول روس کے، خطرناک قوم پرستوں کو پکڑنے کے لیے ہیں۔
بس بہت ہوگیا!
اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوئیٹرس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ روس زیادہ تر یوکرین کی فوجی تنصیبات پر حملہ کر رہا ہے لیکن ان کے پاس مصدقہ خبریں ہیں کہ رہائشی عمارتیں، اہم سول انفراسٹرکچر اور دوسرے غیر عسکری اہداف کو بھی بھاری نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس تنازع میں شہری، جن میں بچے بھی شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’’بس بہت ہوچکا۔ فوجیوں کو اپنی بیرکوں میں واپس جانا ہو گا، رہنماؤں کو امن کی جانب بڑھنا چاہیے اور شہریوں کی حفاظت ہونی چاہیے۔ بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی پابندی ہونی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ نے اپنے انسانی امداد کے فنڈ میں یوکرین کے لیے دو کروڑ امریکی ڈالر کی رقم مختص کی ہے تاکہ فوری امدادی آپریشنز پر کام کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ وائس آف امریکہ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یوکرین کے بحران کے اثرات سے بخوبی نبردآزما ہونے کے لیے اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ اداروں نے منگل کے روز 1.7 ارب ڈالر کی ہنگامی رقم اکٹھی کرنے کی اپیل کی ہے۔
اس ضمن میں عالمی ادارے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق آئندہ چند مہینوں کے دوران یوکرین میں داخلی طور پر ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو فوری امداد اور تحفظ کی ضرورت ہوگی، جب کہ 40 لاکھ سے زیادہ افراد ہمسایہ ملکوں کی جانب ترکِ وطن پر مجبور ہوں گے، جنہیں تحفظ اور اعانت کی ضرورت پیش آئے گی‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
مغربی ممالک کا پاکستان سے روس کی مذمت کرنے کا مطالبہ
منگل کے روز یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے منگل کو حکومتِ پاکستان کو ایک خط لکھا ہے جس میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تنازع پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔
پاکستان کے انگریزی اخبار 'ڈان' کے مطابق خط پر جرمنی، فرانس، ہنگری، اٹلی، پرتگال، ناروے، نیدرلینڈز، جاپان، اسپین، سوئیڈن، چیک ری پبلک، پولینڈ، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، بیلجیم، آسٹریا، بلغاریہ،یونان اور رومانیہ کے پاکستان میں سفرا کے دستخط موجود ہیں۔خط پر یورپی یونین کمیشن کے پاکستان میں سربراہ جب کہ پاکستان میں برطانیہ اور کینیڈا کے ہائی کمشنرز کے دستخط بھی موجود ہیں۔
خط میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ روس کی یوکرین پر جارحیت کی کھل کر مذمت کرے اور یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے۔خط میں کہا گیا ہے کہ روس نے ایک پرامن ہمسایہ ملک پر بلااشتعال چڑھائی کی جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ روس، یوکرین تنازع کے پرامن تصفیے کا حامی ہے۔ تاہم، پاکستان نے کھل کر کسی بھی فریق کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔
(اس خبر کا کچھ مواد رائیٹرز سے لیا گیا)