ہیومن رائٹس واچ (HRW) کا کہنا ہے کہ روس یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں شہریوں کو جانی نقصان پہنچا رہا ہے اور وہ ایسی بارودی سرنگیں استعمال کر رہا ہے جن پر بین الاقوامی سطح پر پابندی عائد ہے۔
16 جون کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ جب کہ روس اور یوکرین دونوں نے اینٹی وہیکل بارودی سرنگیں استعمال کی ہیں، روس اس تنازع کا واحد فریق ہے جس نے ممنوعہ اینٹی پرسنل بارودی سرنگیں بھی استعمال کی ہیں جو شہریوں کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی پیداوار میں خلل ڈال رہی ہیں۔
’یوکرین میں لینڈ مائن کا استعمال‘ کے عنوان سے رپورٹ میں سات قسم کی اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں کی وضاحت کی گئی ہے جن کے 24 فروری کے حملے کے آغاز کے بعد سے یوکرین میں روسی افواج کےاستعمال میں ہونے کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کا یوکرین کے لیے ایک ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی نئی امداد کا اعلان19 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں پر پابندی کے بین الاقوامی معاہدے کے دستخط کنندہ کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احترام کرتا نظر آتا ہے۔ کیف نے اس معاہدے کی سال 2005 میں توثیق کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ سٹیو گوز نے کہا ہے کہ روس کی طرف سے اینٹی پرسنل مائنز کا ایک ایسے ملک میں استعمال جس نے ایسے ہتھیاروں کو ممنوعہ قرار دے رکھا ہے، عالمی سطح پر سخت مذمت کا مستحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں کو شہریوں کی زندگی اور معاش کے لیے ناگزیر اور طویل مدتی خطرے کی وجہ سے کبھی بھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
روس، جس نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کا جواب نہیں دیا ہے، 1997 کے مائن بان معاہدے کا فریق نہیں ہے جس کی 164 ممالک نے توثیق کر رکھی ہے۔ یہ معاہدہ اس طرح کے ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے علاوہ اسلحے کے ذخیروں کے خاتمے، بارودی سرنگوں والے علاقے کی صفائی اور متاثرین کی مدد کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
SEE ALSO: تین دہائیوں تک کمی کے بعد دنیا پھر جوہری ہتھیاروں میں اضافے کی طرف بڑھ رہی ہےرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس نے یوکرین پر اپنے بلا اشتعال حملے کا استعمال کئی قسم کی بارودی سرنگوں کا تجربہ کرنے کے لیے کیا۔ یہ سرنگیں سرکاری مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی طرف سے حال ہی میں تیار گئی تھیں۔ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ ایسی ہی ایک باردوی سرنگ پہلی بار 2021 میں تیار کی گئی تھی جو خاص طور پر بہت تباہ کن ہے۔