ہانگ کانگ: خواتین صحافیوں کو بیجنگ کی مبینہ پشت پناہی میں ہراسانی کا سامنا

ہانگ کانگ میں صحافی جن میں خواتین بھی شامل ہیں، چیف ایگزیکٹو سے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ کھڑا کیے ہوئے ہیں (فائل)

واشنگٹن (ویب ڈیسک) تشدد اور عصمت دری کی دھمکیاں، غدار ہونے کے الزامات، خدو خال پر توہین آمیز جملے۔۔یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا سامنا چین میں سیاست یا انسانی حقوق پر کام کرنے والی خواتین صحافیوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔

آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں قائم تھنک ٹینک " آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ"(ای ایس پی آئی) کی رپورٹ کے مطابق، چین کے سرکردہ صحافیوں اور دیگر تجزیہ کاروں، بالخصوص ایشیائی نژاد خواتین کو ٹویٹر پر ایک مسلسل ، مربوط اوربڑے پیمانے پر آن لائن مہم کا سامنا ہے۔

تھنک ٹینک نےتجزیہ کیا کہ اِس مہم کے پیچھے غیر تصدیق شدہ ٹویٹر اکاونٹس کا ممکنہ تعلق ، چینی کمیونسٹ پارٹی کے حامی نیٹ ورک "سپیمو فلاج" سے ہو سکتا ہے۔سن دو ہزار انیس میں ٹویٹر نے اس نیٹ ورک کا تعلق بیجنگ سے ظاہر کیا تھا۔

SEE ALSO: ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع

مبصرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ موجودہ مہم کا مقصد خواتین صحافیوں کے کام کی ساکھ کو ملکی اور بین الاقوامی سامعین و ناظرین کی نظروں میں خراب کرنا ہے۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس تنظیم کی تحقیق کے مطابق، یہ حکمت عملی بیجنگ کی وسیع تر عالمی میڈیا کوششوں سے مربوط ہے تاکہ میڈیا کوریج کو اپنے حق میں کرنے کے علاوہ تنقید کو روک کر چین دنیا بھر میں اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی چیف کمیونی کیشنز افسر مے فونگ نے ای میل کے ذریعے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرگرم خواتین کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کردار کشی کی آن لائن مہم اِس قدر شدید ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو چھوڑنے یا کسی حد تک سیلف سنسرشپ اپنانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔مے فونگ نے مزید کہا کہ اس مہم کا مقصد طاقتوروں کے سامنے سچ بولنے والوں کو جبراً خاموش کرنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں چینی قونصل خانے کے ترجمان لیو پینگ یو نے کہا کہ چین خواتین کو ہراساں کیے جانے اور بغیر کسی ثبوت کے چینی حکومت کے اِس مہم میں ملوث ہونے کی مذمت کرتا ہے۔