بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی ثنا مٹو کو پیرس جانے سے روک دیا گیا

ثنا مٹو

بھارت کے زیرِانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایوار ڈ یافتہ فوٹوجرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو بھارتی حکام نے پیرس جانے سے روک دیا، جہاں انہوں نے ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے علاوہ اپنی تصاویر کی ایک نمائش میں شرکت کرنا تھی۔ مئی 2022 میں انہیں صحافت کے شعبے میں معتبر اور اعلیٰ ترین ایوارڈ سمجھے جانے والے 'پولٹزر پرائزز 2022 کی "فیچر فوٹوگرافی" کیٹگری میں انعام سے نوازا گیا تھا۔

ثنا مٹو نے وائس آف کو بذریعہ ٹیلی فون بتایا کہ اُن کے پاس فرانس کا ویزا ہونے کے باوجود،ہفتے کے روز اُنہیں دہلی ائیرپورٹ پر روکا گیا۔ "امیگریشن حکام نے مجھے نئی دہلی سے فلائٹ پر سوار ہونے سے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے کیوں روکا جا رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ وجہ نہیں جانتے۔" ثنا کے مطابق وہ "سرینڈپٹی آرل گرانٹ2020 " کے10 فاتحین میں سے ایک تھیں، اور اسی حوالے سے ایک کتاب کی لانچ اور فوٹوگرافی کی نمائش میں شرکت کے لیےجا رہی تھیں۔انہوں نے کہا کہ وہ پیرس جا کر اِس فیسٹیول میں شرکت نہ کرنے پر نا خوش ہیں۔"سرینڈپٹی آرل گرانٹ" کے اس فیسٹیول میں دیگر فوٹوگرافرز اور آرٹسٹوں نے بھی شرکت کرنا تھی۔

اس ایونٹ کے لیے ثنا سمیت جیتنے والے 6 بھارتیوں کو پیرس جانے کی دعوت دی گئی تھی، تاہم بھارتی حکام نے صرف ثنا کو وہاں جانے سے روک دیا۔ ثنا کے مطابق اُسی فلائٹ میں اس ایونٹ میں شرکت کے لیے جانے والے ایک ایوارڈ یافتہ بھارتی صحافی کو نہیں روکا گیا تھا۔

ثنامٹو نے ٹویٹر پر اپنے پاسپورٹ پر لگے فرانس کے ویزے اور بورڈنگ کارڈ کی تصاویر شئیر کیں، جن پر بھارتی ائیرپورٹ حکام کی جانب سے لگائی گئی اس مہر کو بھی پڑھا جا سکتا ہے جس پر لکھا ہے ’’ کینسلڈ ود آوٹ پریجوڈس‘‘ یعنی بنا کسی تعصب کے منسوخ کیا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ نے بھارتی وزارتِ داخلہ سے متعدد بار اِس فیصلہ کی وجہ جاننے کے لیے رابطہ کیا، تاہم انہوں نے اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔وائس آف امریکہ کے رپورٹرشیخ عزیز الرحمن کے مطابق نئی دہلی میں وزارت کی امیگریشن ڈیسک کے ایک جونئیر افسر نے کہا کہ میڈیا سے بات کرنے کے اہل حکام موجود نہیں۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ثنا مٹو کے خلاف بھارتی حکام کےاس ایکشن پرتنقید کی ہے۔

"کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس"(سی پی جے) نے بھارتی حکام کو کہا کہ وہ ثنا کو آزادانہ طور پر سفر کرنے دیں۔اپنی ایک ٹویٹ میں سی پی جے نے کہا کہ "متعدد کشمیری صحافیوں نے پینلز اور ایوارڈز کی تقاریب کے لیے بیرون ملک سفر کرنے میں خصوصی مشکلات کی اطلاع سی پی جے کو دی ہے۔ سفری پابندیاں کشمیری صحافیوں کے خلاف ہراساں کیے جانے کے ایک منظم طریقہِ کار کا حصہ ہیں، جنہیں اگست 2019 سے من مانی گرفتاریوں، غیر ضروری مقدمات، دھمکیوں، جسمانی حملوں اور چھاپوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔"ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ "بھارتی حکومت کشمیری صحافیوں کو غیر ملکی سفر سے روکنے کی اپنی روش کو فوری طور پر ختم کرے۔"

انٹرنیشنل سنٹر فور جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) میں گلوبل ریسرچ کی نائب صدر جولی پوسیٹی نےفون پر گفتگو میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ یہ ہراساں کرنے کا ایک مسلسل انداز محسوس ہونے لگا ہے، جومودی انتظامیہ پر تنقید کرنے والے ایسے ہندوستانی صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جو بین الاقوامی برادری سے رابطے میں ہوں ‘‘۔ جولی نے مذید کہا کہ ثنا پہلی کشمیری صحافی نہیں ہیں جنہیں بغیر کسی جواز کے سفر کرنے کے حق سے روکا گیا، اُن کی معلومات کے مطابق وہ پولٹزر پرائز کی پہلی فاتح ضرور ہیں ، جنہیں گراؤنڈ کیا گیا ہے۔ ہم نے مارچ میں رعنا ایوب کے کیس میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھی، جب انہیں ممبئی کے ہوائی اڈے پر مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا گیا ، اور آئی سی ایف جے کے علاوہ ’’ڈاوٹی اسٹریٹ چیمبرز‘‘کے زیر اہتمام ایک تقریب میں خطاب کرنے کے لیے لندن جانے سے روک دیا گیا،جس کے بعد عدالت نے ان کے سفر کے حق کو برقرار رکھا۔

رانا ایوب

اِس سال مارچ میں رعنا ایوب کو ممبئی ائیرپورٹ سے یورپ جانے والی ایک بین الاقوامی پرواز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا، جب وہ مختلف صحافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور بھارت میں صحافیوں کو دھمکانے کے حوالے سے بات کرنے جا رہی تھیں۔ رعنا ایوب ایک ممتاز بھارتی تحقیقاتی صحافی ہونے کے علاوہ مودی حکومت اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو قوم پرست نظریے کی سخت ناقد ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے انہیں روکے جانے کے فیصلے کے 6 دن کے بعد عدالت نے اُنہیں یورپ سفر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

جولی پوسیٹی کے مطابق صحافیوں کی نقل و حرکت پر بلا جواز پابندی نہ صرف ان کے آزادانہ نقل و حرکت کے حق پر بلکہ آزادیِ صحافت پربھی حملہ ہے۔

حالیہ برسوں میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والوں سمیت متعدد ہندوستانی صحافیوں اور کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں ہندوستانی حکام نے بین الاقوامی سفر سے روک دیا ۔جیسےاس سال اپریل میں بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق سربراہ اور مودی سرکار کے سخت ناقد، آکار پٹیل کو مبینہ طور پر اِس تنظیم کے بھارتی دفتر کے خلاف 3 سال پرانے قانونی مقدمے کی وجہ سے امریکہ جانے سے روک دیا گیا تھا۔

2019 میں کشمیری صحافی گوہر گیلانی کو نئی دہلی ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے جرمنی جانے سے روک دیا۔

انڈین ایکسپریس نیوز ویب سائٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کے کئی صحافی ہندوستانی حکام کی طرف سے تیار کردہ ’نو فلائی لسٹ ‘ میں شامل ہیں ، جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔