روسی صدر ولاڈی میر پوٹن ایک ایسے وقت میں ایران کا دورہ کر رہےہیں جبکہ ایک جانب تو امریکی صدر بائیڈن نے مشرق وسطی کا اپنا دورہ مکمل کیا ہے۔ اور اسرائیل اور خلیجی عرب ریاستوں کے درمیان تعلق میں بہتری پیدا ہورہی ہے۔ دوسری جانب یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس پر عالمی تعزیرات عائد ہیں جبکہ ایران کو اپنےجوہری پروگرام کی وجہ سے پہلے ہی تعزیرات کا سامنا ہے۔
ایران میں ذرائع ابلاغ کے مطابق اگرچہ یہ پہلے سے طے شدہ دورہ ہے اور اس دورے کا صدر بائیڈن کے اسرائیل اور سعودی عرب کے حالیہ دورے سے کوئی تعلق نہیں ہے، مگر بعض تجزیہ کار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
واشنگٹن میں قائم امریکی فارن پالیسی کونسل کے سینئیر نائب صدر ایلان برمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نظام الاوقات کے لحاظ سے یہ دورہ بہت اہم ہے جو صدر بائیڈن کے دورے کے فورا بعد ہورہا ہے۔ اس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ روس اور ایران دونوں پر اس وقت تعزیرات عائد ہیں اور وہ دونوں عالمی برادری کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ پھل پھول رہے ہیں۔ وہ ایسی علاقائی قوتیں ہیں، جنہیں عالمی امور میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
SEE ALSO: پوٹن کا دورۂ ایران: ایردوان سے ملاقات سمیت یوکرینی گندم کی ترسیل ایجنڈے میں شاملاس سے قبل صدر بائیڈن کا مشرق وسطی کا دورہ ہوا جو عالمی امور کے ماہرین کے مطابق اس بات کا برملا اشارہ تھا کہ امریکہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ مشرق وسطی کا خطہ اب تبدیل ہو رہا ہے اور یہ کہ امریکہ نئی حقیقتوں کے مطابق عمل کرنے کا پابند ہے جس میں ابراہام معاہدوں کے تحت خلیجی عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں مدد دینا بھی شامل ہے۔
ایلان برمن نے کہا کہ ایران تعلقات معمول پر لانے کے اس عمل کا کھلم کھلا مخالف ہے۔ اور وہ ان طاقتوں یا گروپوں کی تائید اور حوصلہ افزائی کرتا ہے جو اس عمل کے مخالف ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ روسی صدر کے اس دورے کے بعد خطے میں اس حوالے سے کشمکش میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی تہران کا دورہ کیا ہے۔ جہاں ان کی روسی صدر سے یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندر گاہوں سے یوکرینی غلہ کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے کے لئے کوششوں کے حوالے سے روسی صدر سے ملاقات ہوئی۔
SEE ALSO: یوکرین جنگ کی یورپ اب قیمت چکا رہا ہے، روس کل چکائے گا، تجزیہ کاراسکے علاوہ ایران۔ ترکی اور روس کے سربراہوں کے درمیان شام کے حوالے سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ تہران میں مقیم پاکستانی تجزیہ کار ڈاکٹر راشد نقوی کے بقول بظاہر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ آستانہ مذاکرات کے حوالے سے ہوا جسکا اصل موضوع شام ہے جہاں ایران اور روس شام کے صدر اسد کے حامی ہیں۔ جبکہ اس حمایت کے مسئلے پر ایران اور ترکی کے درمیان بھی اختلافات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ خطے کے حالات کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو وہ سمجھتے کہ یہ دورہ صدر بائیڈن کے دورے کے جواب میں ہی ہو رہا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں خطے میں بڑی طاقتوں اور ان کی پراکسیز یعنی نیابت کرنے والوں درمیان کشمکش میں شدت پیدا ہوتی جائے گی۔
اس وقت ایران اور روس دونوں ہی بین الاقوامی تعزیرات کی زد میں ہیں۔ اور دونوں کے درمیان ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ وہ دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ تعزیرات ا نپر کوئی اثر نہیں ڈال رہی ہیں۔ خاص طور پر روس چونکہ ایک بڑی طاقت ہے۔ اور وہ دنیا پر اپنے اس تاثر کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ الگ تھلگ رہ گیا ہے۔ اس لئے اسے نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے ۔
مڈایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ڈاکٹر زبیر اقبال کے بقول روس اب جنوب اورجنوب مشرق کی جانب نئے اتحادیوں کے لئے دیکھ رہا۔ اور روسی صدر کا صدر بائیڈن کے مشرق وسطی کے دورے کے فورا بعد ایران کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
ایران کے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا میں صدر پوٹن کے دورے کوجو کوریج مل رہی ہے۔ اور ایران کے سرکاری حلقوں میں اس دورے کو بظاہر جس طرح لیا جا رہا ہے اسکے پیش نظر ایرانی دعوں کے باوجود کہ اس پہلے سے طے شدہ دورے کا صدربائیڈن کے دورے سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ واضح طورپر نظر آتا ہے کہ ایشیا کے بعد اب مشرق وسطی ایک بار پھر بڑی طاقتوں کے درمیان براہ راست یا پراکسیز کے ذریعے بڑی کشمکش کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ اور یوکرین کی جنگ اور اس کے سبب پیدا ہونے والے حالات نے ایک بار پھر دنیا کو تقسیم کردیا ہے۔ یہ تقسیم کہاں منتج ہو گی، اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔