جب بھی کوئی میڈل ملتا ہے, وائس آف امریکہ کو یاد کرتا ہوں، شاہ حسین شاہ

  • شہناز عزیز

Shah Hussain Shah

مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی جب برمنگھم کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیتنے والے ایتھلیٹ شاہ حسین نے کہا ’’ جب بھی کوئی میڈل ملتا ہے میں وائس آف امریکہ کو یاد کرتا ہوں‘‘

وائس آف امریکہ کے پروگرام "میری کہانی" میں ، ان کی شرکت کو چھ سال ہوگئے ہیں اور ان کی والدہ خدیجہ کہتی ہیں کہ ہم اکثر گھر میں بھی یہی بات کرتے ہیں کہ کیسے ایک اجںبی بچے کے لئے وائس آف امریکہ کی آواز پر لوگوں نے اپنے دلوں کو کھول دیا۔ میرے بیٹے شاہ بابا نے اس کے بعد جوڈو کے بین الاقوامی مقابلوں میں متعدد گولڈ میڈل ، سلور میڈل اور برونز میڈل جیتے ہیں۔اور اس کی کامیابی میں آپ لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔"

شاہ حسین اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں،"جس ٹریننگ کے لئے ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر مشہود قادری) نے مجھے اسپانسر کیا تھا، اس ہی کی وجہ سے میں ریو اولمپکس، اور دیگر مقابلوں میں شرکت کا اہل ہوسکا، میں جوڈو کا اچھا کھلاڑی تھا، لیکن اس ٹریننگ نےمجھے ایک ڈسپلن سکھایا، خوراک سے لے کر،تیکنیک، ایکسر سائز سب کچھ۔۔ جو بین الاقوامی مقابلوں کی بنیادی ضرورت ہے۔اس کے بعد میں نے بہت سے میڈل جیتے ہیں ، اور اب پیرس اولمپکس میں شرکت کی تیاری کر رہا ہوں۔"

جب شاہ حسین نے برمنگھم میں برونز میڈل جیتا تو میں نے ان سے بات کی تو وہ سونے کا تمغہ نہ جیتنے پر دکھی ضرور تھے لیکن آئندہ کی کامیابیوں کے لئے پر امید بھی۔

"امید تو مجھے پوری تھی لیکن اپریل کے آخر میں مجھے چوٹ لگ گئی تھی جس کی وجہ سے پورے طور پر ٹریننگ نہیں ہو سکی۔ جس کا اثر میرے کھیل پر بھی پڑا، اور صرف برونز ہی حاصل کر سکا۔"

ایتھلیٹ برمنگھم سے ترکی جارہے ہیں جہاں وہ ’ اسلامک سالیڈیریٹی گیمز‘ میں شرکت کر رہے ہیں۔

شاہ حسین شاہ بڑی سچائی سے اپنی خامیوں پر بھی بات کرتے ہیں۔انہوں نے برونز ملنے پر کہا کہ مجھ سے بہت سی غلطیاں بھی ہوئیں، لیکن اب میں انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، انہوں نے اپنی کیٹیگری میں بھی تبدیلی کی ہے تاکہ پیرس اولمپکس میں کسی میڈل کے امکانات کو بڑھایا جا سکے۔

اگر چھ سال پیچھے جائیں تو جون 2016کی بات ہے، شاہ حسین نے ہمارے ریڈیو آن ٹی وی پروگرام’ میر ی کہانی" میں پہلی بار شرکت کی تھی، لیاری کے مایہ ناز باکسر، حسین شاہ کے بیٹے نے، جو لندن میں پیدا ہوا اور جاپان میں پوری زندگی گزاری، لیکن باپ کی طرح اس کا دل بھی پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے۔انہوں نے بتایا تھا کہ وہ بھارت میں سونے کا میڈل جوڈو کے مقابلے میں جیت چکے ہیں، محض ذاتی محنت کے بل پر،" لیکن بین الاقوامی مقابلوں، خاص طور پر اولمپکس کے لئے جس ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے، وسائل نہ ہو نے کی وجہ سے وہ اس کے حصول سے قاصر ہیں۔"

اس سوال کے جواب میں کہ جاپان میں بیس برس گزارنے کے باوجود انہیں وہاں یہ ٹریننگ کیوں نہیں مل سکی تھی؟ ان کا سیدھا سادا جواب تھا

’’کیوں کہ میرے والد، پاکستان کے ہی شہری رہنا چاہتے ہیں، اور میں بھی۔‘‘

دنیا کے ایک بڑے ترقی یافتہ ملک کی شہریت کون حاصل نہیں کر نا چاہتا، آج کے معاشرے یہ سننا آپ کے لئے غیر مانوس ضرور ہوگا،لیکن اپنے باپ حسین شاہ کو ہیرو اور آئیڈل سمجھنے والے شاہ با با کے لئے نہیں۔

’’میرے ابو اتنے بڑے باکسر ہیں، اور اتنے ہی اچھے کوچ، یہاں انہوں نے اولمپک جیتنے والے باکسرز کو کوچ کیا ہے۔ لیکن وہ ہر ایک سے جھک کر ملتے ہیں، اور بہت ہی صاف گو ہیں۔بلا جھجک اپنے دل کی بات کرتے ہیں ۔ہم دوستوں کی طرح ہیں، ابو ہر وقت ہنسی مذاق کرتے ہیں لیکن ان کا دل بہت ہی حساس اور نرم ہے ۔اور ان کے دل میں پاکستان اور لیاری کے لئے جو پیار ہے وہ انہوں نے بچپن سے ہم میں بھی سمو دیا ہے۔‘‘

ایتھلیٹ شاہ حسین اپنے ایتھلیٹ والد حسین شاہ کے ساتھ

ان کی اس بات نے، وائس آف امریکہ کے اسی پروگرام ’ میری کہانی ‘ میں شریک ہمارے مہمان ڈاکٹر مشہود قادری کے دل کو چھو لیا تھا۔مشہود قادری بچوں کے لئے بہت نرم دل اور بہت ہی بلند امیدیں رکھتے ہیں جس کا مظہر ان کی فلم’ ساون‘ ہے۔ پولیو کا شکار معذور بچہ جو نا ممکنات کے بلند پہاڑ کو عبور کر لیتا ہے ۔ انہوں نے جاپان میں جوڈو کے ایک اعلی ٹریننگ سینٹر میں تربیت حاصل کرنے کے لئے، شاہ حسین کو اسپانسر کیا ، اور اس کے بعد شاہ حسین نے کسی کو مایوس نہیں کیا۔

جس دن یہ پروگرام نشر ہوا تھا، یعنی 30 جون، 2016کو، اس وقت غلام فرید صابری کے بیٹے، امجد صابری کے وحشیانہ قتل کو، صرف ایک ہفتہ ہی گزرا تھا، مشہود قادری نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا مقصد معاشرے میں منفی جذبات پیدا کرکے، انسانوں کے ایک دوسرے پر بھروسے کو ختم کرنا ہوتا ہے، اور کھیل اس کے برعکس معاشرے کو جوڑتے ہیں، دوسروں کی کامیابی پر فخر کا ایک احساس پیدا کر تے ہیں۔ ایک پورے معاشرے کو جیسے ایک ٹیم بنا دیتے ہیں۔

اسی پروگرام میں شاہ حسین شاہ کے والد، حسین شاہ نے کہا تھا کہ ’لوگ اکثر مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ایک اولمپک میڈلسٹ اور سیف گیمز میں پانچ گولڈ میڈل جیتنے والے واحد پاکستانی باکسر کا بیٹا آخر جوڈو کا کھلاڑی کیوں ہے ؟’اس کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ میرا بیٹا شاہ حسین شاہ جاپان میں رہ کر باکسنگ کو اپناتا تو شاید اس کا کریئر اتنا کامیاب نہ ہوتا۔ جوڈو جاپان کا قومی کھیل ہے۔"

شاہ حسین صاف اردو تو بولتے ہی ہیں، لیکن ان کی مادری زبان کچھی ہے اور وہ گھر میں اسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ پاکستان کئی دفعہ گئے ہیں، اپنی امی کے ساتھ حج بھی کیا ہے۔ انہیں گھر میں بننے والا پاکستانی کھانا بہت اچھا لگتا ہے، لیکن خود جاپانی کھانا بہت اچھا بناتے ہیں۔وہ اپنے والدین کے بارے میں بڑے پیار سے بات کرتے ہیں۔

اور اب چھ سال بعد میں نے شاہ حسین سے آخری بات یہی پوچھی، کیا تبدیلی آئی زندگی میں، ایک خوش شکل کامیاب کھلاڑی کولڑکیوں کی توجہ کی کمی تو نہیں ہوگی؟ شاہ نے اس کی تردید تو نہیں کی لیکن کہا کہ امی ابو تو کئی برسوں سے شادی پر زور دے رہے ہیں، لیکن یہ میرا آخری اولمپک ہو گا، جس کے بعد میں اور کچھ کرنے کا سوچوں گا۔