جرمنی نے پیر کے روز 1972 میں ہونے والے میونخ اولمپکس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں سے "معافی" مانگی، اور اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کی ، جس کی وجہ سے 11 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے۔
جرمنی کی جانب سے صدر فرینک والٹر اسٹین میئر کی طرف سے مقتول کھلاڑیوں کے خاندانوں کے ساتھ زر تلافی پر پچاس سال پر محیط تلخ اور طویل لڑائی کے بعد سامنے آئی ہے۔ جرمنی اور متاثرہ خاندانوں کے درمیان زرتلاقی پر اتفاق بھی ہو گیا ہے اور جرمنی اتھیلیٹس کے لیے سکیورٹی میں رہ جانے والی خامیوں کو بھی تسلیم کر رہا ہے۔
سٹین میئر نے Fuerstenfeldbruck ہوائی اڈے پر جہاں یہ حملہ ہوا تھا ، ایک پروقار تقریب میں کہا " جو کچھ ہوا ہم اس کی تلافی نہیں کر سکتے، یہاں تک کہ آپ کو دفاعی، لاعلمی اور ناانصافی کے حوالے سے جس چیز کا بھی سامنا کرنا پڑا اور جھیلنا پڑا، میں اس پر شرمندہ ہوں"۔
"اس ملک کے سربراہ کی حیثیت سے اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کے نام پر، میں آپ سے میونخ میں اولمپک گیمز کے وقت اسرائیلی کھلاڑیوں کے تحفظ میں کمی اور اس کے بعد وضاحت نہ کرنے کے لیے آپ سے معافی مانگتا ہوں۔"
اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے تقریر کے لئے اسٹین میئر کی تعریف کی جسے انہوں نے "جرات مندانہ ‘اور تاریخی تقریر" قرار دیا۔
اسرائیل کے صدر جرمنی کے سرکاری دورے پر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ "یہ اقدام نصف صدی بعد، متاثرین، خاندانوں اور خود تاریخ کے لیے اخلاقیات اور انصاف کے ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔"
میونخ اولمپکس حملہ
5 ستمبر 1972 کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ" بلیک ستمبر" کے آٹھ مسلح ارکان نے اولمپک ویلیج میں اسرائیلی ٹیم کے فلیٹ میں گھس کر دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور نو اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا۔
مغربی جرمنی کی پولیس نے ایک بڑے ریسکیو آپریشن کے ساتھ کاروائی کی جس میں یرغمال بنانے والے آٹھ میں سے پانچ افراد ایک پولیس افسر اور یرغمال بنائے جانے والے تمام نو کھلاڑی مارے گئے۔
اس اندوہناک واقعے کے باوجود، بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے 6 ستمبر کی صبح اعلان کیا کہ کھیل جاری رہیں گے۔
جرمنی کے صدر سٹین مئیر نے پورے واقعہ کا خلاصہ تین ناکامیوں کے طور پر کیا، ، پہلی، گیمز کی تیاری اور اس کے حفاظت کے نظریہ میں ناکامی ؛ 5 اور 6 ستمبر کے واقعات ؛ اور تیسری ناکامی جو "قتل کے اگلے دن شروع ہوئی۔ خاموشی، دبادینا اور فراموش کر دینا۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں تک، متاثرین کی تکلیف کو نظر انداز کیا جاتا رہا، انہوں نے اسے "سسنگ دلی کے برس" قرار دیا۔
ان کھیلوں کا مقصد ہولوکاسٹ کے 27 سال بعد ایک نئے جرمنی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، لیکن اس کے بجائے، اس سانحے سے اسرائیل اور جرمنی کے درمیان دوری اگئی
2012 میں، اسرائیل نے ان ہلاکتوں سے متعلق 45 سرکاری دس
.؎تاویزات جاری کیں، جن میں خصوصی طور پر غیر اعلانیہ مواد بھی شامل تھا، جس میں جرمن سیکیورٹی سروسز کی کارکردگی پر تنقید کی۔
رپورٹس میں اسرائیل کے سابق انٹیلی جنس سربراہ زیوی ضمیر کا ایک سرکاری بیان بھی شامل ہے ۔جس میں کہا گیا کہ جرمن پولیس نے "انسانی جانوں کو بچانے کے لیے معمولی سی کوشش بھی نہیں کی"۔
'غیر انسانی اور ناقابل فہم"
ہلاک ہونے والوں کےسوگوار لواحقین نے جرمنی سے معافی، سرکاری دستاویزات تک رسائی اور ابتدائی 4.5 ملین یورو سے زیادہ مناسب معاوضے کے حصول کے لیے برسوں سے جدوجہد کی ہے۔
حال ہی میں صرف دو ہفتے قبل، متاثرین کے لواحقین نے کہا کہ انہیں 10 ملین یورو کی پیشکش کی گئی تھی ،جس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو پہلے ہی دی جا چکی تھی۔
اسرائیل کے صدر ہرزوگ نے کہا کہ غمزدہ رشتہ دار جب بھی جرمنی یا بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ساتھ مسئلہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
"میرے خیال میں یہاں المناک دباؤ تھا،" انہوں نے اتوار کے روز کئی ناکامیوں کے بارے میں بات کی جو "غیر انسانی اور ناقابل فہم" تھیں جیسے کہ "حقیقت یہ ہے کہ یرغمالیوں کو مرنے دیا گیا اور گیمز جاری رہے۔"
خاندانوں کی جانب سے پیر کی تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی کے بعد، بالآخر گزشتہ بدھ کو برلن کے لیے 28 ملین یورو معاوضہ فراہم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر اتفاق ہوا۔
اسٹین میئر نے اعتراف کیا کہ یہ "شرمناک" ہے کہ ایک معاہدہ ہونے میں اتنی تاخیر ہو ئی۔
اینکی سپٹزر ک، جن کے شوہر آندرے سپٹزر کو شادی کے صرف ایک سال اور تین ماہ بعد یرغمال بنانے کے دوران ہلاک کیا گیا ، ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی دہائیوں میں خود کو زندگی گزارنے کے قابل بنا سکی ہیں ، لیکن انہیں "سکون نہیں مل سکا کیونکہ انصاف نہیں ملا" ۔
اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔