ورلڈ کپ کی میزبانی کا قرعہ دوحہ کے نام کھلنے کے بعد سےخلیج کے اس ملک میں غیر ملکی مزدووروں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات پر تنقید اور الزامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اتوار کو مقابلوں کے آغاز کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔تاہم کھیلوں کے افتتاح سے قبل ایک پریس کانفرنس میں فیفا کے صدر گیانی انفینٹینو نے انسانی حقوق کے حوالے سے ملک کے خراب ریکارڈ پر مغربی تنقید کی مذمت کرتے ہوئے میڈیا پر منافقت کا الزام لگایا۔
انفینٹینو نے کہا"میں یورپی ہوں، ہم دنیا بھر میں 3000 سال سے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں اخلاقی سبق دینے سے پہلے اگلے 3000 سالوں کے لیے معافی مانگنی چاہیے،"، انہوں نے ان تبصروں کی وضاحت نہیں کی۔
انفنٹینو نے یہ بھی کہا کہ قطر پر کی جانے والی تنقید انہیں سمجھ میں نہیں آتی۔ان کا کہنا تھا ، 'ہم سب کو خود کو تعلیم دینی چاہیے، بہت سی چیزیں پرفیکٹ نہیں ہوتیں لیکن اصلاح اور تبدیلی میں وقت لگتا ہے'۔
انفینٹینو کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں ہیومین رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائرکٹر مائیکل پیج بھی شامل تھے، جنہوں نے اس بیان کو ایک دھواں دار زبانی حملے سے تعبیر کرتے ہوئے اسے"whataboutism" سے تعبیر کیا۔جس سے مراد یہ ہے کہ کسی غلطی کو حق بجانب قرار دینے کے لئے دووسرے کو بھی اس کا مرتکب قرار دیا جائے۔
بہرحال ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر لوگوں نے برطانوی روزنامے گارڈین کی اس رپورٹ کو شیئر کیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ 2010 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق حاصل کرنے کے بعد سے مبینہ طور پر بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6,500 سے زائد تارکین وطن کارکن قطر میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
گارڈین کی تحقیقات کے مطابق یہ تعداد مزدوروں کے آبائی ممالک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔
قطری حکام نے برطانوی اخبار کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اسی دوران اے ایف پی کی ایک ڈاکو منٹری میں کٹھمنڈو کے انٹریشنل ائر پورٹ پر ایک نوجوان شخص ایک ٹرالی کو دھکیلتا جارہا ہے جس پر ایک بڑا سا سفید صندوق لداہے۔ لیکن باہر سے آنے والے بیشتر تارکین وطن مزدوروں کی طرح وہ اس میں کوئی تحائف نہیں لایا بلکہ اس میں وہ اپنے دوست اور کام کے ساتھی 35 سالہ یادو کا جسد خاکی ان کے گھر والوں تک پہنچانےکے لئے قطر سےآیا ہے۔
SEE ALSO: قطر فٹبال ورلڈکپ سے قبل اجرت میں تاخیر پر مظاہرہ کرنے والے مزدور گرفتاریادو ان مزدوروں میں شامل تھے جوورلڈ کپ کے لئے تعمیرات میں ہزاروں دوسرے غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ کام کر رہے تھے اور ایک تعمیراتی سائیٹ پر کام کرتے ہوئے حفاظتی جنگلے سے گر کر ہلاک ہو گئے۔
نوجوان شخص نے اپنا نام نہیں بتایا تاہم کہا کہ وہ یادو کے بیوی بچوں، والدین اور چھوٹے بھائی بہنوں کو میت سونپ کر ایک ہفتے بعد واپس قطر چلا جائے گا۔
اے ایف پی کی ڈاکومنٹری کے مطابق، قطر کو ورلڈ کپ کی میزبانی تقویض ہونے کے بعد کے برسوں میں ہزاروں غریب نیپالی روزی روٹی کمانے ایک بہتر زندگی کی تلاش میں قطرگئے ہیں، بلکہ ورلڈ کپ کے حوالے سے نیپالی مزدور وہاں جانے والا سب سے بڑا گروپ ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت سے اپنے پیروں پر چل کر نہیں بلکہ اسی طرح تابوتوں میں اپنے واطن واپس آتے رہے ہیں۔
قطر میں 2010 سے لے کر اب تک ہزاروں نیپالی ورکرز ورلڈ کپ کے تعمیراتی مقامات پر ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن متاثرین کے غمزدہ خاندانوں کو قطری کمپنیوں کی طرف سے شاذ و نادر ہی کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے۔
یادو کی طرح زیادہ تر اموات اونچی عمارتوں سے مزدوروں کے گرنے یا دل کا دورہ پڑنے سے ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے قطر میں کام کرنے کے حالات پر سوال اٹھایا ہے، جہاں درجہ حرارت اکثر 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
سمیتا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی موت کے سرٹیفکیٹ میں ان کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتایا گیا تھا، جو ایک حادثہ نہیں بلکہ قدرتی وجہ ہوتی ہے اور اس کا کمپنی کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
مقامی حکام کے مطابق 13ہزار کے لگ بھگ نیپالی قطر میں ورلڈ کپ کی تعمیراتی سائٹس پر کام کرنے کے لیے وہاں گئے تھے۔ ان میں سے تقریباً 2000 مر چکے ہیں۔تاہم انسانی حقوق کے مختلف گروپوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہے۔
ملازمتوں کی کمی اور بیرون ملک زیادہ تنخواہوں کی وجہ سے، پانچ لاکھ نیپالی ہر سال خلیجی ریاستوں اور ملائیشیا میں کام کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق، 2013 میں قطر میں تقریباً 200 نیپالی تارکین وطن مزدوروں کی موت ہو ئی تھی، ان میں سے اکثر کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کچھ کارکن گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، لیکن ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود، نیپال سمیت جنوب ایشیائی ملکوں کےبہت سے باشندے خلیج کے ان ملکوں میں کام کرنےکے لئےآتے رہتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ غربت اور ان کے اپنے ملکوں میں روزگار کی کمی ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی اور میڈیا سے لی گئی ہیں)