طالبان نے مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افغانوں کا انخلا اور انہیں اپنے ملک میں دوبارہ آباد کرنا بند کریں، ۔ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے افغانستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے منگل کو کہا، دنیا کو یہ باور کرنا چاہیے کہ وہ اس تاثر کے تحت افغانوں کے لیے [امیگریشن] کیسز نہ کھولیں کہ یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔
لاکھوں افغان، جن میں زیادہ تر تعلیم یافتہ افراد تھے جنہوں نے سابقہ امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت کام کیا، طالبان کے ظلم و ستم کے خوف سے گزشتہ دو سالوں میں اپنے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے امریکہ، کینیڈا اور کئی یورپی ممالک نے 150,000 سے زیادہ افغانستان کے شہریوں کو اپنے ملکوں میں بسایا ہے
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق لاکھوں افغان مہاجرین، پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے طور پر دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں، جس نے شام، وینزویلا اور یوکرین کے بعد افغانستان کو دنیا میں چوتھا ایساملک بنا دیا ہے جہاں سے بڑی تعداد میں پناہ گزیں آتے ہیں
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے طالبان پر سابق افغان سیکیورٹی اہلکاروں کے کچھ ارکان کو ماورائے عدالت حراست، تشدد اور پھانسی دینے کا الزام لگایا ہے – طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
جنگ سے تباہ حال ملک میں بہتر سیکورٹی پر فخر کرتے ہوئے، طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تمام افغان، بشمول وہ لوگ جنہوں نے پچھلی افغان حکومت کے لیے کام کیا تھا، گھروں میں محفوظ ہیں اور آزادانہ طور پر رہ سکتے ہیں اور کام کر سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے، طالبان کے قائم مقام وزیر اطلاعات و ثقافت، خیر اللہ خیرخواہ نے الزام لگایا تھا کہ کابل یونیورسٹی کے لیکچررز کو بیرون ملک سے دعوت نامے موصول ہو رہے ہیں کہ وہ ان کے ملک میں چلے آئیں
یہ ریمارکس ان میڈیا رپورٹس کے جواب میں دیے گئے جن میں کہا گیا تھا کہ کابل یونیورسٹی کے نصف سے زیادہ لیکچررز، تقریباً 400 افراد، سیکیورٹی خدشات، طالبان کی پابندیوں اور دیگر سماجی اور معاشی مشکلات کی وجہ سے افغانستان سے ہجرت کر چکے ہیں۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق، میڈیا کے سینکڑوں پیشہ ور افراد نے بھی افغانستان چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے آزاد میڈیا کو نمایاں دھچکا لگا ہے۔
افغانستان سے نقل مکانی کا بنیادی محرک ،عدم تحفظ، غربت، بے روزگاری اور زندگی کے بہتر حالات کی توقعات کو سمجھا جاتا ہے
طالبان نے حکومت پر سختی سے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، کسی بھی گروپ یا غیر طالبان فرد کو اقتدار میں شریک کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تمام سیاسی اور اعلیٰ عہدوں سے خواتین کو خاص طور پر باہر رکھا گیا ہے۔
آئین کو معطل کرتے ہوئے طالبان نے افغانستان کی قومی اسمبلی، انتخابی اداروں اور قومی انسانی حقوق کمیشن کو تحلیل کر دیا ہے اور تمام اختیارات اپنے سپریم لیڈر کے ہاتھ میں دے دیئے ہیں۔