جنرل باجوہ کے اثاثوں کی خبر دینے والے صحافی احمد نورانی اشتہاری قرار، سی پی جے کی مذمت

احمد نورانی ،پاکستانی صحافی

احمد نورانی ،پاکستانی صحافی

پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے اثاثوں اور ٹیکس گوشواروں کو منظر عام پر لانے والے جلاوطن پاکستانی صحافی احمد نورانی کو پاکستان میں اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ سٹوری 20 نومبر 2022 کو فیکٹ فوکس نے شائع کی تھی۔ احمد نورانی سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان میں صحافی کو اس لیے سزا نہیں دی جاتی کہ اس نے کوئی غلط خبر دی ہے، بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ اس نے خبر دی ہی کیوں ہے۔ خبر کو چیلنج نہیں کیا جاتا بلکہ خبر کرنے پر پکڑا جاتا ہے۔

احمد نورانی ایک انویسٹیگیٹو جرنلسٹ ہیں اور اس وقت امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔وہ پاکستان میں گزشتہ 15 سال سے زیادہ عرصے سے منظم جرائم، سیاست، کرپشن، فراڈ اور ہیومن رائٹس پر ایکسکلوسو رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں ، اور اس وقت فیکٹ فوکس ویب سائٹ کے لئے ایکسکلیو سیو رپورٹس لکھتے ہیں ۔

گزشتہ سال نومبر میں احمد نورانی نے اس وقت کے حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریٹرنز اور ان کی دولت میں کئی گنا اضافے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس رپورٹ میں جنرل کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق دعووں کی تردید کی تھی۔اس سلسلے میں گذشتہ دسمبر میں احمد نورانی کے خلاف ایف آئی اے میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی ۔

احمد نورانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ " ایف آئی آر کے مطابق ٹیکس ریٹرنز تک رسائی غلط طریقے سے حاصل کی گئی ہے ۔

فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ کاعکس

فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ کاعکس

لیکن احمد نورانی کا کہنا ہے کہ ان کی یہ خبر بدعنوانی سے متعلق تھی ، بجائے یہ کہ اعلی حکام میری رپورٹ سےآگے بڑھ کر کرپشن کی تحقیقات کریں وہ کہتے ہیں کہ میں نے خبر کیوں دی ؟

"اگر میری خبر غلط ہے یا اس میں دی گئیں معلومات غلط ہیں تو وہ ضرور کارروائی کریں ، پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پہلے بھی کیسز درج ہوتے رہے ہیں ، مثال کے طور پر اگر ایک صحافی نے کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کے خلاف خبر دی تو صحافی پر قتل کا الزام لگا کر ، یا فراڈ کا الزام لگا کر مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے ، تاکہ وہ ڈر جائے ، لیکن یہ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ خبر کردینے پر ایف آئی آر درج کی گئی کہ اس نے خبر کیوں دی یا اس خبر کےلئے دستاویزی ثبوت کیسے حاصل کئے "۔

احمد نورانی کا کہنا ہے کہ اسی کیس کی تحقیقات کے دوران ان کے خلاف بغیر کسی کارروائی کے ایک چالان کے تحت اب انہیں اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا ہے ، اور ان کی گرفتاری کے لیے قانونی کوششیں کی جا رہی ہیں، اور ایسے الزامات لگائے گئے ہیں جو بے بنیاد ہیں ۔

اشتہاری قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر احمد نورانی خود کو پیش نہیں کرتے تو قانون نافذ کرنے والے ایک ایسا عمل شروع کر سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ قانونی طور پر ان کی جائیدادیں، اثاثے ضبط کر سکتے ہیں، بینک اکاؤنٹس بند کر سکتے ہیں اوران کے خاندان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ یا سی پی جے کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر Beh Lih Yi نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف اور ان کے خاندان کے ٹیکس ریکارڈز پر رپورٹنگ کے بعد جلاوطن صحافی احمد نورانی کو پاکستانی حکام کی جانب سے نشانہ بنانا آزادی صحافت کے لیے ایک واضح دھمکی اور خطرہ ہے۔

اسی چالان میں ایک آزاد صحافی اور نجی نشریاتی ادارے بول نیوز کے سابق نمائندے شاہد اسلم پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ٹیکس ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر حکام کو رشوت کی پیشکش کی۔شاہد اسلم ایف آئی اے پر تنقیدی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں ۔ انہوں سی پی جے سے بات کرتے ہوئے اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ فیکٹ فوکس کی تحقیقاتی خبر میں کوئی کردار نہیں رکھتے ۔

SEE ALSO: جنرل باجوہ ٹیکس ریٹرنز لیکس؛ صحافی شاہد اسلم کی درخواست ضمانت منظور ، رہائی کا حکم

پاکستان میں انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک بیان میں سینئر صحافی احمد نورانی کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر ایک پرانے مقدمے میں اشتہاری مجرم قرار دینے پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔

ایچ آر سی پی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اقدام غیر متناسب تھا جب کہ اس سے احمد نورانی کے آزادیٴ اظہارِ رائے کے حق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپیل کی گئی ہے کہ عدالت اس معاملے کا نوٹس لے اور احمد نورانی کو ریلیف دیا جائے۔

جنوری 2023 میں، ایف آئی اے نے شاہد اسلم کو لیک میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیاتھا اور ان کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرلیا تھا۔ شاہد اسلم کے مطابق، فون اور لیپ ٹاپ فرانزک تجزیہ کے لیے ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔

سی پی جے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکام کو احمد نورانی اور صحافی شاہد اسلم کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات کو ختم کرنا چاہیے اور شاہد اسلم کی گرفتاری کے دوران ضبط کیے گئے الیکٹرانک آلات کو فوری طور پر واپس کرنا چاہیے۔"

صحافی احمد نورانی کی اس سے پہلے بھی سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ٹیکس گوشواروں پر مبنی درجنوں تحقیقاتی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں ، لیکن ان کے مطابق ان کے خلاف پہلے ایسی کارروائی نہیں ہوئی ۔

امریکہ میں رہتے ہوئے فیکٹ فوکس ویب سائٹ پر اگست 2020 میں احمد نورانی نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے خاندان کے اثاثوں کی رپورٹ جاری کی۔نومبر 2021 میں انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو کلپ اپ لوڈ کیا جس میں وہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا کے لئے دباؤ ڈالنے کے بارے میں دیگر نامعلوم افراد سے بات کر رہے تھے۔

ان رپورٹس کے بعد، احمد نورانی کے مطابق، انہیں امریکہ میں رہتے ہوئے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

'فوجی افسران کے اثاثوں پر پہلے بھی خبریں کیں، اب بھی کرتے رہیں گے'

ایک تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے اپنے دفاع میں احمد نورانی کہتے ہیں کہ" ٹیکس ریکارڈ تک رسائی غیر قانونی ہے ، امریکہ میں بھی کسی شخص کے ٹیکس ریکارڈ کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ،لیکن اگر کوئی شخص صحافی کو ایسی معلومات فراہم کرے، تواس صحافی کا کام ہے کہ ان معلومات کی جانچ پڑتال کرے کہ آیا وہ دستاویزات یا معلومات درست ہیں بھی کہ نہیں ، دوسرا کیا ان معلومات کی بنیاد پر ایسی خبر بنتی ہے جو عوام کے مفاد میں ہے ،اور ان تک پہنچنا ضروری ہے اور تیسرا جس کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے اس کا موقف کیا ہے ، تو یہ غیر قانونی نہیں، دوسرا یہ کہ ٹیکس ریکارڈ ہمیشہ لیک ہوتے ہیں ، کوئی سورس ہی ہوتا ہے جو آپ کو یہ معلومات فراہم کرتا ہے، لہذا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا "۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے مطابق صحافیوں کو ان کے خفیہ ذرائع کو ظاہر کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔

احمد نورانی کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے لوگوں نے انہیں واضح طور پر بتایا ہے کہ ان کے خلاف اس کارروائی میں فوج نہیں بلکہ موجودہ حکومت ملوث ہے ۔

"یہ کیس جب شروع ہوا تھا اس وقت آئی ایس آئی نے تحقیقات کیں اور کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا ، لیکن بعد میں یہ کیس ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا ، اب موجودہ حکومت مسلسل دباو ڈال رہی ہے کہ ان لوگوں (صحافیوں) کو مثال بنا دیا جائے "۔

احمد نورانی کے اس بیان اور حالیہ چالان پر وائس آف امریکہ نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا ہے ، ان کے دفتر نے کہا ہے کہ ہم اس حوالے سے ایک بیان بھیج رہے ہیں ، لیکن تاحال وی او اے کو کوئی بیان موصول نہیں ہوا ہے۔

SEE ALSO: آرمی چیف کے اہلِ خانہ کے اثاثوں سے متعلق اعداد و شمار گمراہ کن ہیں: آئی ایس پی آر

احمد نورانی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میں پاکستانی فوج کو بلاوجہ نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف رپورٹس لکھتا رہا ہوں ۔

" میں نے پاکستان کے طاقت ور بیوروکریٹس ، سیاستدانوں ، سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان کے بارے میں بھی رپورٹنگ کی ہے ، اور ان کے ورکرز ہمیشہ مجھ پر تنقید کرتے رہے ہیں، لیکن اگر میں نے پاکستانی جرنلز پر رپورٹس لکھی ہیں تو کیا غلط کیا۔ کیا وہ رپورٹس غلط تھیں‘‘

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد نورانی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بطور صحافی کام کرتے ہوئے اکتوبر 2017 میں اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے قریب موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو زبردستی روکا اور پھر انہیں گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا۔اور انہیں ان کی پورٹنگ کی وجہ سے کئی بار دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔

امریکہ میں جلاوطنی کے دوران بھی احمد نورانی نے صحافت کا سلسلہ جاری رکھا اور 2020 سے 'فیکٹ فوکس'' نامی ویب سائٹ سے منسلک ہیں ، جسے احمد نورانی اور صحافیوں کی ایک ٹیم مل کر چلاتے ہیں ۔

SEE ALSO: ملک چھوڑ دیا لیکن پھر بھی محفوظ نہیں :پاکستانی صحافی 

جب احمد نورانی سے پوچھا گیا کہ وہ اس کیس میں کن نتائج کی توقع کر رہے ہیں،ان کے پاس کیا قانونی راستے ہیں ، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وکلاسے رابطے میں ہیں اور ایف آئی اے کے اس چالان کو چیلنج کریں گے ۔

پاکستان میں میڈیا کی آزادی سے متعلق بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں اپنی تشویش کا اظہار گاہے بہ گاہے کرتی رہتی ہیں۔ اور پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان کی موجودہ حکومت ہو یا سابق حکومت، عہدیدار یہ دعوی کرتے آئے ہیں کہ صحافیوں کو جتنی آزادی پاکستان کے اندر حاصل ہے، وہ یورپ میں بھی نہیں ہے۔

احمدنورانی کہتے ہیں کہ وہ پہلے بھی اس طرح کی خبریں کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہے گے ۔

نوٹ: وائس آف امریکہ کو اگر اس خبر پر پاکستان کی حکومت یا فوج کے ادارے کی طرف سے ان کا موقف موصول جاتا ہے تو ان کے ورژن کو خبر کا حصہ بنایا جائے گا۔