پاکستان کی وزارت اطلاعات اور نشریات نے صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جنرلسٹس کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق رپورٹ کرنے والے صحافی احمد نورانی اور ان کی مدد کے الزام میں شاہد اسلم کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انفارمیشن کی وزیر مریم اورنگزیب کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کا دعوی بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔
یہ بیان امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے نے وائس آف امریکہ کو ایک ٹیلسٹ میسج کے زریعے بھیجا ہے ۔
اس سے پہلے جلاوطن پاکستانی صحافی احمد نورانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے اثاثوں اور ٹیکس گوشواروں پر رپورٹ کرنے پر انہیں ایک چالان میں اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ سٹوری 20 نومبر 2022 کو فیکٹ فوکس نے شائع کی تھی ۔
اسی چالان میں ایک آزاد صحافی اور نجی نشریاتی ادارے بول نیوز کے سابق نمائندے شاہد اسلم پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ٹیکس ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر حکام کو رشوت کی پیشکش کی۔صحافی شاہد اسلم نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔
شاہد اسلم ایف آئی اے پر تنقیدی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں ۔
اس حوالے سےصحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ یا سی پی جے کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر Beh Lih Yi نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف اور ان کے خاندان کے ٹیکس ریکارڈز پر رپورٹنگ کے بعد جلاوطن صحافی احمد نورانی کو پاکستانی حکام کی جانب سے نشانہ بنانا آزادی صحافت کے لیے ایک واضح دھمکی اور خطرہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سی پی جے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکام کو احمد نورانی اور صحافی شاہد اسلم کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات کو ختم کرنا چاہیے اور شاہد اسلم کی گرفتاری کے دوران ضبط کیے گئے الیکٹرانک آلات کو فوری طور پر واپس کرنا چاہیے۔"
پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں صحافیوں کو ذاتی ڈیٹا لیک کرنے کے مقدمات کا سامنا ہے اور قانونی کارروائی ہرگز ہراساں کرنے یا ڈرانے کے طور پر نہیں ہو سکتی یا ہونی چاہیے۔
احمد نورانی ایک انویسٹیگیٹو جرنلسٹ ہیں اور اس وقت امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔وہ پاکستان میں گزشتہ 15 سال سے زیادہ عرصے سے منظم جرائم، سیاست، کرپشن، فراڈ اور ہیومن رائٹس پر ایکسکلوسو رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں ، اور اس وقت فیکٹ فوکس ویب سائٹ کے لئے ایکسکلیو سیو رپورٹس لکھتے ہیں ۔
گزشتہ سال نومبر میں احمد نورانی نے اس وقت کے حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریٹرنز اور ان کی دولت میں کئی گنا اضافے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس رپورٹ میں جنرل کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق دعووں کی تردید کی تھی۔اس سلسلے میں گذشتہ دسمبر میں احمد نورانی کے خلاف ایف آئی اے میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی ۔
احمد نورانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ " ایف آئی آر کے مطابق ٹیکس ریٹرنز تک رسائی غلط طریقے سے حاصل کی گئی ہے ۔
لیکن احمد نورانی کا کہنا ہے کہ ان کی یہ خبر بدعنوانی سے متعلق تھی ، بجائے اس کے کہ اعلی حکام میری رپورٹ سےآگے بڑھ کر کرپشن کی تحقیقات کریں وہ کہتے ہیں کہ میں نے خبر کیوں دی ؟
"اگر میری خبر غلط ہے یا اس میں دی گئیں معلومات غلط ہیں تو وہ ضرور کارروائی کریں ، پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پہلے بھی کیسز درج ہوتے رہے ہیں ، مثال کے طور پر اگر ایک صحافی نے کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کے خلاف خبر دی تو صحافی پر قتل کا الزام لگا کر ، یا فراڈ کا الزام لگا کر مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے ، تاکہ وہ ڈر جائے ، لیکن یہ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ خبردینے پر ایف آئی آر درج کی گئی کہ اس نے خبر کیوں دی یا اس خبر کےلئے دستاویزی ثبوت کیسے حاصل کئے "۔
احمد نورانی کا کہنا ہے کہ اسی کیس کی تحقیقات کے دوران ان کے خلاف بغیر کسی کارروائی کے ایک چالان کے تحت اب انہیں اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا ہے ، اور ان کی گرفتاری کے لیے قانونی کوششیں کی جا رہی ہیں، اور ایسے الزامات لگائے گئے ہیں جو بے بنیاد ہیں ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد نورانی کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے لوگوں نے انہیں واضح طور پر بتایا ہے کہ ان کے خلاف اس کارروائی میں فوج نہیں بلکہ موجودہ حکومت ملوث ہے ۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ "سنگین جرم کرنے پر دونوں صحافیوں کے خلاف قانونی راستہ اختیارکیا جائے گا اور حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے"۔
اشتہاری قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر احمد نورانی خود کو پیش نہیں کرتے تو قانون نافذ کرنے والے ایک ایسا عمل شروع کر سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ قانونی طور پر ان کی جائیدادیں، اثاثے ضبط کر سکتے ہیں، بینک اکاؤنٹس بند کر سکتے ہیں اوران کے خاندان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
وزارت اطلاعات اور نشریات کے بیان کے مطابق" کسی بھی فرد کا ذاتی ڈیٹا لیک کرنا ان افراد کے عوامی پروفائل سے قطع نظر ملکی قوانین کے خلاف ہے اور یہ اصول زیادہ تر قومی قوانین میں برقرار ہے۔ صحافی ،ڈیٹا کے تحفظ اور رازداری سے متعلق قانونی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ مناسب جواز کے بغیر ذاتی ڈیٹا کا لیک ہونا نہ صرف کسی فرد کے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کے افراد کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔ ذاتی معلومات کے غیر مجاز افشاء سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کو پہچاننا اور ان کا ازالہ کرنا ضروری ہے"۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے مطابق صحافیوں کو ان کے خفیہ ذرائع کو ظاہر کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔
صحافی احمد نورانی کی اس سے پہلے بھی سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ٹیکس گوشواروں پر مبنی درجنوں تحقیقاتی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں ، لیکن ان کے مطابق ان کے خلاف پہلے ایسی کارروائی نہیں ہوئی ۔
SEE ALSO: عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق اپنی رپورٹ پر قائم ہوں: احمد نورانیامریکہ میں رہتے ہوئے فیکٹ فوکس ویب سائٹ پر اگست 2020 میں احمد نورانی نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے خاندان کے اثاثوں کی رپورٹ جاری کی۔نومبر 2021 میں انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو کلپ اپ لوڈ کیا جس میں وہ مبینہ طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا کے لئے دباؤ ڈالنے کے بارے میں دیگر نامعلوم افراد سے بات کر رہے تھے۔
ان رپورٹس کے بعد، احمد نورانی کے مطابق، انہیں امریکہ میں رہتے ہوئے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔
وزارت اطلاعات کے بیان میں کہا گیا ہے کہ"ہم ایک بار پھر اظہار کی آزادی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور ایک متحرک جمہوریت کے لیے آزاد میڈیا کو بنیاد سمجھتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف کالے قوانین کو ختم کیا ہے بلکہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی کی ہے۔نتیجے کے طور پر، وہ اب کسی قسم کی دھمکی، جبر اور ہراساں کیے جانے کے خطرے کے بغیر مناسب ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی سات پوائنٹس کی بہتری میڈیا کی آزادی کے لیے ہمارے مسلسل عزم کو ظاہر کرتی ہے"۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ " ہم ذمہ دار میڈیا کے فروغ کے لیے ملک کے اندر صحافتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی اظہار کو ذمہ داری سے اور قانونی فریم ورک کے اندر استعمال کیا جانا چاہیے"۔
پاکستان کے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل 2021 میں ایسی شقیں شامل ہیں جو صحافیوں کی پرائیویسی کے حق اور ان کے ذرائع کی رازداری کا تحفظ کرتی ہیں۔