سابق امریکی صدر باراک اوباما نے جمعرات کو CNN، کیبل نیوز نیٹ ورک کی کرسٹیان امان پورکو دیے جانے والےایک انٹرویو میں کہا،کہ صدر(بائیڈن) کو وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں ہندو اکثریت والےبھارت میں، مسلم اقلیت کے تحفظ کا ذکر کرنا چاہئیے۔
یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی گئی ہے جب وزیر اعظم مودی امریکہ کے چار روزہ اسٹیٹ وزٹ پر ہیں، ان کا انتہائی پرتپاک استقبال ،متعدد دفاعی اور اقتصادی معاہدے اورامکانات، بھارتی اسٹوڈنٹس کے امریکی اداروں میں داخلوں اور اسی طرح ملازمتوں کے کوٹے میں اضافے جیسی پیش رفت اس دورے کونمایاں کرتی ہیں۔
تاہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما کی حیثیت سے اتنے ہی اہم ان کے دور ِحکومت میں انسانی حقوق کی صورتحال، پریس کی آزادی اوراقلیتوں کے خلاف تشدد پر اٹھنے والے سوالات اوراعتراضات بھی ہیں۔جن میں امریکہ کی حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے 75 ارکان کا وہ خط جس میں صدربائیڈن پر زور دیا گیاہے کہ وہ نریندر مودی کے ساتھ انسانی حقوق کے معاملات پر بات کریں، نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے احتجاجی مظاہرےاور موقر سیاسی رہنماؤں اور مبصرین کی آرا اس دورے پر تنقید میں شامل ہیں۔
اس میں تازہ ترین سی این این نیوز نیٹ ورک پر اس کی چیف انٹر نیشنل اینکر، کرسٹیان امان پور کے ساتھ سابق صدر براک اوباما کا وہ انٹرویو ہے جوجمعرات کو اس دن نشر ہواجو مودی کے دورے کا اہم ترین دن تھا۔
یہ انٹرویو دنیا میں’ جمہوریت کی صورتحال ‘کے بارے میں تھاجس کے ایک حصے کے طور پر نریندر مودی کے ’اسٹیٹ وزٹ‘ پر بھی بات ہوئی جو، بائیڈن انتظامیہ میں محض تیسرا ایسا دورہ ہے۔
معروف جرنلسٹ کرسٹیان امان پور نے ان سے سوال کیا کہ صدر بائیڈن نے جمہوریت کے دفاع کو ایک طرح سے اپنی انتظامیہ میں مرکزیت دی ہے،لیکن ہوا کچھ یوں ہے کہ اس وقت جمہوریت کو صرف آمروں سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ ڈیمو کریسیز سے بھی ہے۔
امان پور نے کہا، انہوں نے(بائیڈن نے)چین کے صدر کو ڈکٹیٹر کہا اور وہ اس پر قائم بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس وقت بھارت کے وزیر اعظم مودی کی میزبانی کر رہے ہیں جنہیں مطلق العنان یا کم از کم غیر جمہوری طرز عمل رکھنے والاسمجھا جاتا ہے۔ تو ایک صدر کو اس طرح کے لیڈرز کے ساتھ کیسے انگیج ہونا چاہیے؟
اوباما نے کہا کہ آمروں یا دیگر جمہوریت مخالف رہنماؤں سے ملاقاتیں امریکی صدارت کے پیچیدہ پہلوؤں میں سے صرف ایک ہیں، بقول ان کے وہ ’اوول آفس‘ میں اپنی معیاد کے دوران بہت سی ایسی شخصیات سے عہدہ برآ ہوئےجن سے وہ متفق نہیں تھے۔
اوباما نے کہا "جب میں صدر تھا، میں کچھ معاملات میں ایسی شخصیات سے نمٹتا تھا جو اتحادی تھے، لیکن اگر آپ پرائیویٹ طور پرمجھ پر(پوچھنے کے لیے) دباؤ ڈالیں کہ کیا وہ اپنی حکومتوں اور اپنی سیاسی جماعتوں کو اس طرح چلاتے ہیں کہ میں کہوں کہ وہ مثالی طور پر جمہوری ہیں؟تو مجھے ’نہیں‘ کہنا پڑے گا۔"
لیکن، انہوں نے مزید کہا، "آپ کو ان کے ساتھ کام کرنا پڑے گا کیونکہ وہ قومی سلامتی کی وجوہات کی بناء پر اہم ہیں، کیونکہ اقتصادی مفادات کا ایک سلسلہ ہے۔ میں نے پیرس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چین اوروزیر اعظم مودی کےساتھ کام کیا کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کسی طرح کے بھی وقتی مسائل سے بالاتر ہے۔"
تاہم، انہوں نےکہا کہ بائیڈن کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ "ان اصولوں کو برقرار رکھیں اور ایسے رجحانات کو جو پریشان کن ہیں چیلنج کریں، چاہےایسا بند دروازوں کے پیچھے ہو یا کھلے عام"۔
اوباما نے کہا کہ اس لیے میں" لیبلز کے بارے میں فکر مند ہونے سے کہیں زیادہ مخصوص طریقوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔"
سابق امریکی صدر نے مزید کہا اگران کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے، جنہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں،تو ان کے استدلال کا ایک حصہ، بقول ان کے یہ ہوگا کہ، " اگر آپ ہندوستان میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہندوستان کسی وقت منتشر ہوجائے۔"
انہوں نے کہا" ہم نے دیکھا ہے کہ جب آپ بڑے اندرونی تنازعات شروع کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلم انڈیا بلکہ ہندو انڈیا کے مفادات کے بھی خلاف ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں ایمانداری سے بات کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے، "۔
بھارت میں سابق صدر اوباما کے بیان پر ردعمل:
’دی انڈین ایکسپریس‘ سمیت بھارتی میڈیا نے اس انٹرویو کو نمایاں جگہ دی ہے ،روزنامہ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے اپنے تبصرے میں یاد دلایا ہے کہ’جنوری 2015 میں، یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے ایک دن بعد، دہلی کے سری فورٹ آڈیٹوریم میں اپنی تقریر کے دوران، اوباما نے ہندوستان کے ساتھ ساتھ امریکہ میں مذہب کی آزادی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اخبار کے مطابق’انہوں نے کہا تھا"ہمارے دونوں عظیم ممالک میں، ہمارے یہاں ہندو اور مسلمان، عیسائی اور سکھ، اور یہودی اور بدھ اور جین اور بہت سے عقائد ہیں۔ اور ہمیں گاندھی جی کی دانائی یاد آتی ہے، جنہوں نے کہا تھا، ’’میرے لیے، مختلف مذاہب ایک ہی باغ کے خوبصورت پھول ہیں، وہ ایک ہی عظیم الشان درخت کی شاخیں ہیں‘‘۔
انٹرویو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، کانگریس کی ترجمان اور سوشل میڈیا کی سربراہ سپریہ شرینیت نے ٹویٹ کی، "مسٹر مودی کے دوست 'باراک' کے پاس ان کے لیے ایک پیغام ہے۔ لگتا ہے وہ بھی مسٹر مودی کے خلاف کسی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں؟ کم از کم بھگتوں کاتو یہی الزام ہوگا!
روز نامہ ’انڈیا ٹوڈے‘ اور ’دی ہندو‘ سمیت کئی اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر آسام کے چیف منسٹر ہمانتا بسوا سرما کی ٹوئٹ کا چرچا ہےجنہوں نے ٹویٹر پر یہ کہتے ہوئے ہلچل مچا دی ہے کہ بھارت کے پاس بہت سے "حسین اوباما" ہیں ۔ ہم واشنگٹن جانے سے پہلے ان سے نمٹنے کو ترجیح دیں گے۔
وہ جرنلسٹ روہینی سنگھ کے ٹوئٹر پر پوچھے جانے والے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ آیا آسام پولیس سابق امریکی صدر باراک اوباما کو گرفتار کرے گی۔
نریندر مودی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔
صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں جمعرات کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے جمہوری اقدار پر بات کی ہے۔ اور امریکہ اور بھارت دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
جو بائیڈن نے سٹیٹ وزٹ پر آئے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے وائٹ ہاؤس میں گفتگو میں انسانی حقوق کا بالواسطہ حوالہ دیا ۔بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں مودی کے ساتھ بیٹھے ہوئے کہا،
"میں اس پر بات کرنے کا منتظر ہوں کہ ہم اپنی شراکت کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں اور ایک ساتھ مل کر ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں، جو ہمارے ملکوں کے عوام کے لائق ہو اور جس کی بنیاد جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی اور قانون کی حکمرانی پر ہو۔"