امریکی سینٹ میں دو سینیٹرز اپنی طویل العمری اور بعض اوقات صحت کے مسائل کے باوجود اپنی مدت پوری کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک تو ریپبلکن سینیٹر مچ میکانل ہیں جن کی عمر 81 سال ہے اور وہ سینٹ میں ریپبلکن پارٹی کے لیڈر ہیں۔
دوسرےکیلیفورنیا سے ڈیمو کریٹک سینیٹر ڈائیان فائنسٹین جن کی عمر نوے سال ہے اور وہ امریکی سینٹ کی معمر ترین رکن ہیں۔
وہ کئی مہینے بیماری کے باعث گھر پر مقیم رہنے کے بعد گزشتہ دنوں سینٹ میں واپس آئی ہیں۔ جبکہ ان کی سینٹ سے غیر حاضری نے ان خدشات کو جنم دیا کہ ہو سکتا ہے وہ سینیٹر کے طور پر اب اپنے فرائض انجام نہ دے پائیں۔
ان کی اپنی پارٹی کے ساتھی سینیٹرز اس خیال کا بھی اظہار کر رہے تھے کہ اگر صحت کے مسائل آڑے آ رہے ہیں تو بہتر ہے کہ وہ اپنی نشست چھوڑ دیں لیکن فائنسٹین کے دفتر نے ایسی کسی تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور 90 سالہ سینیٹر سینٹ میں واپس آگئیں۔
اب بدھ کے روز ایک مرتبہ پھر ان کے دفتر نے بتایا کہ سینیٹر اپنے گھر میں گر گئیں اور انہیں ہسپتال جانا پڑا۔
سینٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر ڈیمو کریٹک چک شومر نے کہا ہے کہ انہوں نے فائنسٹین سے بات کی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں کوئی چوٹ نہیں آئی اور وہ منگل کو صرف احتیاطاًہسپتال گئی تھیں جہاں ان کے دفتر کے مطابق ان کے تمام ٹیسٹ نارمل آئے ہیں۔
مچ میکانل کی بات کیجیے تو جولائی کے آخر میں ان کی صحت کے بارے میں اس وقت شدید تشویش پیدا ہوگئی جب ایک پریس کانفرنس میں بات کرتے کرتے جملے کے دوران ہی وہ اچانک بالکل ساکن ہو گئے۔
اور تقریباً 20 سیکنڈ تک خالی نظروں سے سوال کرنے والے صحافیوں کو دیکھتے رہے۔ تب ان کے پیچھے کھڑے ان کے ساتھی سینیٹرز نے انہیں بازؤوں سے تھام کر پوچھا آیا وہ اپنے دفتر میں واپس جانا چاہیں گے۔
بعد میں جب وہ نیوز کانفرنس میں واپس آئے تو انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب بھی دیے گویا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
ان سے ان کی اس حالت کے بارے میں پوچھا گیا تو بھی انہوں نے کہا وہ بالکل ٹھیک ہیں۔
ان کے دفتر نے ایسے تمام خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ آیا وہ اپنی سینٹ کی مدت پوری کریں گے یا نہیں، ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور سینٹ میں اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے جن کے لیے ریاست کینٹکی کے لوگوں نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔
مارچ کے مہینے میں مچ میکانل ایک ہوٹل میں ڈنر میں شریک تھے کہ اچانک گر گئے اور ان کے سر میں چوٹ آئی جس کے بعد وہ چھ ہفتے تک سینٹ میں واپس نہ آسکے اور بعد میں بھی ائیر پورٹ جانے آنے کے لیے وہیل چئیر کا استعمال کرتے رہے۔
ان کی گفتگو میں رکاوٹ بھی اب زیادہ محسوس ہونے لگی ہے لیکن چونکہ وہ اپنی کیفیت اپنے تک ہی رکھتے ہیں اس لیے ان کی صحت کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
وہ پہلی مرتبہ 1984 میں سینیٹر منتخب ہوئے اور 2007 سے ریپبلکن پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں لیکن شاید اب انہیں قیادت کا منصب چھوڑنا پڑے کیونکہ ان کے ساتھی سینیٹرز ہی کہہ رہے ہیں کہ اس منصب کے لیے بہتر حاضر دماغی کی ضرورت ہے۔
ڈیمو کریٹک سینیٹر فائنسٹین 1992 میں پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئیں اور 2024 میں ان کی موجودہ مدت ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ انتخاب میں مزید حصہ نہیں لیں گی۔
سیاستدانوں کے لیے عمر کی حد؟
ان دو امریکی سینیٹرز کی عمر اور ان کی صحت کی صورتِ حال نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیا سیاستدانوں کے لیے بھی عمر کی کوئی حد مقرر کی جانی چاہئیے تاکہ اس کے بعد وہ اپنا منصب چھوڑ دیں اور نوجون نسل کے لیے جگہ خالی کردیں۔
دیگر ملکوں کو چھوڑ کر اگر صرف امریکہ کی بات کی جائے تو اس وقت منتخب قیادت کافی معمر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر بائیڈن 80 سال کی عمر میں امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں 70 سال کی عمر میں یہ منصب سنبھالا تھا۔ اور یہ دونوں ہی 2024 کے صدارتی انتخاب میں 4 سالہ مدتِ صدارت کے دوبارہ امیدوار ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق امریکہ کی موجودہ 118 ویں کانگریس، دو عشروں میں "معمر ترین کانگریس" ہے یعنی اس میں نہ صرف 81 سالہ مچ میکانل اور 90 سالہ ڈائیان فائنسٹین جیسے سینیٹرز ہیں بلکہ اور بھی کئی ارکان جلد ہی معمر کہلائیں گے۔
چنانچہ یہ سوال امریکیوں کے سامنے رکھا گیا کہ آیا سیاستدانوں کی عمر کی حد مقرر کرنا ضروری ہو گیا ہے اور کیا ان کے منصب کی مدت کی حد بھی ہونی چاہئیے؟
ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکیوں کی نصف تعداد سیاستدانوں کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے کے حق میں ہے۔ اور " نارتھ ایسٹرن گلوبل نیوز" نامی ویب سائٹ کے مطابق اس کی حمایت کرنے والوں میں سابقہ ٹویٹر اور موجودہ "ایکس" کہلانے والی کمپنی کے مالک ایلون مسک اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: امریکیوں کا جمہوریت کی کارکردگی پر عدم اطمینان، سروے
ماہرین کہتے ہیں کہ مدت کی حد مقرر کرنا بہتر نہ ہوگا کیونکہ اس طرح منتخب سیاستدان ضروری تجربہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور "کہنہ مشق" نہیں کہلا پائیں گے۔
لیکن اس کے باوجود امریکہ کی درجن بھر سے زیادہ ریاستوں میں منتخب سیاستدانوں کے لیے ان کے انتخابی منصب کی مدت کی حد مقرر کی گئی ہے۔
کتنی عمر بہت عمر ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ عمر کی حد مقرر کرنا بھی آسان نہیں کیونکہ اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی جو کسی بھی شخص کے ساتھ دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ عمر کی بنیاد پر کسی امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بات ہو جسمانی یا ذہنی صلاحیت کی تو آپ پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ کس عمر میں یہ دونوں صلاحیتیں واقعتاً متاثر ہو جائیں گی۔
اب رہ گئے ووٹر تو ان کے سامنے یہ سوال رکھ بھی دیا جائے تو ان کی اکثریت کے جواب کو قانون بننے کے لیے طویل مراحل سے گزرنا ہوگا۔
اور ویسے بھی کوئی پارٹی یہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوگی کہ ووٹرز کا فیصلہ قانون بن جائے کیونکہ بات ہے عمر کی اور نوجوان ووٹر اگر عمر دیکھ کرصرف نوجوان نمائندے منتخب کریں تو پھر تجربے اور روایت کے امین قدامت پسندوں کا کیا ہوگا؟۔۔اس بارے میں امریکی عوام کی رائے منقسم ہے۔
(اس مضمون کے لیے کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)