محض خبر صلاح الدین صاحب کی زندگی نہیں تھی انہیں شاعری،پھولوں، تتلیوں اور بچوں سے بھی پیار تھا

  • بہجت جیلانی

میرے سینئر کولیگ، میرے ایڈیٹر، میرے بڑے بھائی، میرے بزرگ صلاح الدین صاحب جن کو میں نے چار عشرے اپنے سامنے دیکھا زندگی کرتے ہوئے اور پھر زندگی نبھاتے ہوئے۔ دو لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ زندگی کرتے کرتے زندگی نبھانے کا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے حسیب کی بے وقت اور فوری موت سے ہوا جو صرف اڑتیس سال کی زندگی لے کر آیا اور یوں ایک دم گیا کہ ماں بودہ سات سال زندہ تو رہیں لیکن کبھی دل سے ہنس نہ پائیں!ان سے میری ملاقات چالیس برس پر محیط ہے۔

میں اپنی یادیں لکھنے بیٹھوں تو کاغذ بھرتے جائیں اور میری داستان کم نہ پڑے ۔ ریڈیو پاکستان کے نیوز کنٹرولر سے وائس آف امریکہ کی اردو سروس تک ایک انتہائی پروفیشنل اور اپنے کام کو بہترین انداز میں جاننے اور انجام دینے والے صلاح الدین صاحب سے میری ہر ملاقات میری یاد کا حصہ ہے۔ میں نے اپنے پروفیشن کے اس طویل سفر میں ان جیسا با شعور اور اپنے کام کو جاننے والا کم دیکھا ہے۔۔آج تو بس اتنا ہی کہ اب وہ اپنی اہلیہ اور بیٹے سے ملنے کے لئے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے ہیں میری ہر دعا ان کے اس سفر کی آسانی کے لئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان بہت سے جذبوں اور محبتوں کا اظہار ہےجو ان کے ساتھ کام کرنے اور ان کو جاننے والوں نے لفظوں کی صورت میں کیاہے. یہ تو دل کے رشتے ہیں جو آخری سانس تک ساتھ چلتے ہیں ۔اور دل کے ان رشتوں کا ذکر ہوا تو عاطف اور سارا جن کے ساتھ صلاح الدین صاحب نے زندگی کے آخری کئی سال گزارے، عاطف ان کی زندگی کے کئی واقعات سناتے ہیں۔۔

محمد عاطف

صلاح الدین احمد صاحب پہلے میرے سینئیر کولیگ اور بعد میں سسرالی رشتہ دار بنے۔ شادی کے بعد صلاح الدین صاحب کا گھر ایک طرح سے سارا کا میکہ بھی تھا۔ ہمارا ان کے گھر اکثر جانا ہوتا تھا، ان کی اہلیہ محمودہ (بودہ) مجھے اپنا بیٹا کہتی تھیں۔ ہماری شادی کے تین مہینے بعد بودہ انتقال کر گئیں۔ بودہ کے جانے کے بعد ہم صلاح الدین صاحب کی اور وہ ہماری فیملی بن گئے۔ ہم جب بھی کہیں گھومنے پھرنے جاتے، وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔

ایک بار امریکہ کے مشہور نیشنل پارک، ییلو اسٹون پارک گئے تو مجھے کہنے لگے یہ جگہ بلکل کشمیر جیسی ہے دل کرتا ہے انہیں درختوں میں بیٹھا رہوں۔ ہفتے میں دو تین بار ہم ایک دوسرے کو ملتے اس دوران خوب گپ شپ رہتی اور وہ ہمیں اپنے ماضی کے قصے سناتے۔

صلاح الدین احمد(دائیں ) انکے والد(درمیاں میں) اور ماموں۔ فوٹو بشکریہ ظہورزاہد


وہ سرینگر سے لاہور آئے تو ریڈیو پاکستان لاہور میں انگریزی نیوز کاسٹر کا آڈیشن دینے گئے۔ کہا مجھے اپنی انگریزی پر بڑا ناز تھا۔ ریڈیو گئے تو اسلم اظہر نے ان کا آڈیشن لیا، بولے جب میں اسٹوڈیو سے باہر نکلا تو اسلم اظہر نے کہا تم انگریزی تو اچھی پڑھتے ہو لیکن تمھارا بولنا سننے میں ایسا تھا "ڈا ڈا ڈاڈا ڈا، ڈا ڈا ڈا ڈا ڈا، ڈا ڈا ڈا ڈا ڈا" اور کہا کہ نیوز ریڈنگ کی پریکٹس کرو اور کچھ عرصے بعد دوبارہ آنا۔

انہوں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کراچی میں روزنامہ مارننگ نیوز سے کیا جو ڈھاکہ سے شائع ہوتا تھا۔ بعد میں ن م راشد نے انہیں ریڈیو پاکستان کے لیے سب اڈیٹر نیوز کے عہدے کے لیے ہائر کر لیا۔

ریڈیو کا ایک یادگار قصہ ، پاکستانی کشمیر میں بھٹو صاحب کے ایک جلسے کی تقریر تھی جس میں انہوں نے اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کیے ۔ صلاح الدین صاحب نے اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ جلسے کے بعد وہاں موجود صحافتی برادری نے زور دیاکہ یہ تو شامل ہونا چاہیے

اور یہ کہ ہم سب نے تو اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے۔ کہنے لگے میں پریشان ہو گیا اورنیوز روم کو دوبارہ فون کیا اور کہا کہ یہ فقرے رپورٹ میں شامل کیے جائیں۔ بولے بعد میں مزید پریشانی ہوئی اور سوچا کہ شائد یہ حصہ رپورٹ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ کہا میں فوراً وزیرِ اعظم کے کمرے کی طرف گیا ، ان کے سٹاف افسر سے کہا کہ مجھے وزیرِ اعظم سے صرف ایک منٹ چاہیے ایک ضروری سوال کرنا ہے۔ سٹاف افسر نے بتایا کہ شام میں وزیرِ اعظم ایک تقریب میں جائیں گے تم کمرے کے باہر کھڑے ہو جانا۔ بولے وزیرِ اعظم جونہی نکلے میں نے کہا

Prime Minister I presume what you said for Ms Gandhi was for local consumption and not for reporting. Bhutto said, of course.

بولے میں فوراً وزیرِ اعظم کے کمرے میں کھسا اور نیوز روم کو فون کر کے کہا کہ اندرا گاندھی والا حصہ بلکل نشر نہیں کرنا۔ پولے اگلے دن جب اخباروں میں خبر لگی تو بھٹو کے پریس سیکٹری خالد حسن نےدیگرسبھی صحافیوں سے ناراضگی کا اظہار کیا۔

ریڈیو پاکستان اسلام آباد

ایک اور واقعہ جس کا ذکر صلاح الدین صاحب اکثر کرتے تھے وہ تھا انقلابی شاعر حبیب جالب صاحب کا جیل کے اندر ٹرائل۔ صلاح الدین صاحب کو ریڈیو پاکستان کی طرف سے اس مقدمے کی کوریج کے لیے بھیجا گیا۔ بتاتے تھے کہ میں رپورٹنگ کے لیے جیل پہنچا تو اس سیل کی جانب لے جایا گیا جہاں مقدمے کی کاروائی ہونا تھی۔ بولے “ایک طرف سے میں داخل ہو رہا تھا، دوسری طرف سے حبیب جالب کو لایا جا رہا تھا۔ حبیب جالب نے مجھے دیکھا تو دور سے ہی باہیں کھول کر مجھے گلے ملنے کی خاطر آگے بڑھتا ہوا بولا، ارے یار صلاح الدین کیسے ہو؟ کہتے تھے اس لمحے میں سوچا کہ حبیب جالب کا دوست سمجھ اب کہیں میں بھی اسی جیل میں نہ بند کر دیا جاؤں۔”

شہناز عزیز

میں صلاح الدین صاحب کو جن حوالوں سے یاد کرتی ہوں شائد وہ دوسروں سے مختلف ہوں، انکی زندگی صرف حالات حاضرہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک آرٹ کے دلدادہ، شاعری پھولوں اور بچوں سے پیار کرنے والے انسان کی زندگی تھی۔ وہ اور بودہ ان بچوں سے بیت پیار کرتے تھے جو ان کے سامنے پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے اور ہمیشہ ان کے بارے میں پوچھتےتھے، رسمأ نہیں بلکہ ایک شفیق بزرگ کی طرح۔ اور ان کی ہر خوشی میں شامل ہوتے تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے بچوں کو ان کا بھرپور پیار ملا۔

انہوں نے اپنی عزیز ترین ہستیوں سے جدائی کا غم بڑے وقار سے برداشت کیا لیکن میں نے انہیں بہت بار خاموشی سے آنسو بہاتے بھی دیکھاہے۔

ایک بار ہم ان کے گھر گئے تو بیل بجانے پر پتہ چلا کہ وہ اور بودہ گھر پر نہیں ہیں۔ اس وقت دھوپ ڈھل رہی تھی۔ دروازے پر کھڑے کھڑے میں نے دیکھا کہ بہت سی تتلیاں ہمارے چاروں طرف اڑ رہی ہیں اتنی ساری کہ آپ کو حیران کردیں۔ دوسرے دن میں نے پوچھا کہ صلاح الدین صاحب اتنی ساری تتلیاں آپ کے ہاں کیسے!! تو بہت خوش ہوکر انہوں نے بتایا کہ میں نے گھر کے سامنےساری خالی زمین پر ایسے جنگلی پھول اگالئے ہیں جن پر تتلیاں آتی ہیں۔ باہربیٹھ کر انہیں دیکھتا ہوں تو دل خوش ہوجاتا ہے......شائد یہ حسن انہیں اپنے وطن کشمیر سے جوڑتا تھا۔

ایک اور بار انہوں نے اپنا چھوٹا سا پونڈ دکھایا جس میں انہوں نے ننھی منی سنہری مچھلیاں پالی تھیں، پورا تالاب مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھر وہ مچھلیاں کسی وجہ سے مرگئیں تو انہوں نے انتہائی دکھ سے یہ خبر سنائی اور کہا کہ بس اب ہم مچھلیاں نہیں پالیں گے۔

میں اکثر ان سے کشمیر کے ان لوگوں کے بارے میں پوچھتی تھی جن کےآرٹ کو پروگرام’کچھ تو کہئے‘ کا حصہ بنایا جاسکے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ وہ کشمیر کے انگریزی زبان کے انتہائی باکمال شاعر آغا شاہدعلی کے والد آغا اشرف علی کو جانتےہیں۔

صلاح الدین احمد اور آغا اشرف علی ۔ فوٹو بشکریہ ظہورزاہد

آغا شاہدعلی کا انتقال 2001میں ہوچکا تھا۔ ہم ان کی زندگی اور آرٹ پر ان کے والد سے بات کرنا چاہتے تھے۔ صلاح الدین صاحب نے آغا اشرف علی سے بات کی تو وہ تیار ہوگئے۔ میری درخواست پر صلاح الدین صاحب نے آغا شاہدعلی کے کچھ اشعار کا ترجمہ کرکے مجھے دیا۔ بدقسمتی سے آغا صاحب وہ پروگرام نہیں کرسکے لیکن ان اشعار کے ترجمے نے مجھے بالکل حیران کردیا تھا۔ یہ کرنٹ افئیرز کے ماہر کا نہیں ایک ایسے شخص کا ترجمہ تھا جو نازک انسانی جذبات کو، ایک شاعر کے آفاقی احساسات کو، ایک دوسری زبان میں اسی کیفیت کے ساتھ منتقل کرنا جانتا تھا۔ وہ شاعر جو عمر میں ان سے بہت چھوٹا تھا لیکن انہی کی طرح کشمیر کا عاشق تھا۔

تو یہ تھے ہمارے صلاح الدین صاحب، ان کے بارے میں تصور کریں تو وہ پھولوں، تتلیوں اور سبزے کے بیچ میں اپنے پیاروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں۔ اس دنیا سے اس سے اچھی جدائی اور کیا ہوگی!

مدثرہ منظر

ہم انہیں ہمیشہ صلاح الدین صاحب کہہ کر پکارتے تھے مگر ان کی بیوی انہیں صلاح کہتی تھیں اور خود وہ ہمیشہ ہماری بُودہ ہی رہیں۔ مجھے بھی کبھی ان کا اصل نام جاننے کی خواہش نہ ہوئی۔ اکتوبر 1989 میں جب وائس آف امریکہ کے ایکسچینج وزیٹر پروگرام پر میرا پہلی مرتبہ امریکہ آنا ہواتو میں کسی کو نہیں جانتی تھی مگر ریڈیو پاکستان والوں نے بہت تسلی دی تھی کہ وہاں ریڈیو کے بہت اچھے لوگ کام کرتے ہیں ان میں ایک صلاح الدین صاحب بھی ہیں جو نیوز سیکشن میں کنٹرولر تھے مگر وہ اسلام آباد میں اور میں ملتان میں، ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اور جب ملے تو اتنی محبت سے۔ امریکہ آئے ہمیں دوسرا دن تھا اور واسطی صاحب کے گھر کا بیسمنٹ عارضی ٹھکانہ تھا۔ وہیں صلاح الدین صاحب اور بُودا ملنے کے لیے آگئے۔ دل میں سوچا بے سروسامانی میں ان کی تواضح کیا کی جائے مگر بُودا فوراٍ بھانپ گئیں بولیں،" میرا خالی معدہ بلڈ ٹیسٹ تھا اور اس کے بعد صلاح نے مجھے بہت اچھا ناشتہ کروایا ہے تم فکر نہ کرو۔"

صلاح الدین احمد اور انکی اہلیہ۔ بشکریہ ظہور احمد

ان کے صلاح کی محبت کا مرکز وہ اور ان کا بیٹا ہی تو تھے۔ اور پھر کئی سال بیت گئے۔ ہم صلاح الدین صاحب کی یورپین لہجے کی انگریزی اور حالاتِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر کے ساتھ ساتھ ان کے میلوں پیدل چلنے سے مرعوب و متاثر ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان کی آواز ریڈیو کی بہت اچھی آوازوں میں سے تھی اور بھلے وہ براڈ کاسٹنگ کو بس "پیس آف کیک " سمجھتے ہوں مگر خبریں انتہائی متاثر کن لہجے میں پڑھتے تھے۔

میں نے انہیں کبھی اداس اور فکر مند نہیں دیکھا تھا مگر جوان بیٹے کے دنیا سے جانے اور پھر اپنی ہمدرد اور دمساز بُودا کو کھو دینے کے بعد وہ یقیناً بجھ سے گئے تھے۔ ہمارے پاس بھی ان کی تسلی کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وی اواے میں ملازمت ان کی اچھی مصروفیت تھی اور ہم بھی چاہتے تھے کہ وہ بس روز آتے رہیں مگر کچھ ہی عرصے بعد وہ چلے ہی گئے۔ ان کی خیریت کی خبر ہمیں ملتی رہی۔ کبھی کبھار ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ مگر پھر وہ دن بھی آگیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے کون سی آنکھ تھی کہ ان کے جانے پر نم نہ ہوئی ہو۔ ہم سب آپس میں ہی ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے تھے کہ پیچھے رہ جانے والے یہی تو کرتے ہیں!

یاسمین جمیل

وائس آف امریکہ ایک نشریاتی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک ہی بلڈنگ میں، ایک ہی چھت کے نیچے ایک جڑی ہوئی فیملی کی طرح رہنے والے براڈ کاسٹرز کے ایک گروپ کا نام ہے۔ جہاں کسی ایک کی خوشی سب کی خوشی اور کسی ایک کا دکھ سب کا دکھ بن جاتا ہے۔ صلاح الدین صاحب اس فیملی کے ایک اہم فرد تھے۔

ان کےساتھ ایک عرصہ تک اسٹوڈیو میں خبریں اور رپورٹس لائیو پیش کرنے اور اہم عالمی واقعات کو ایک ساتھ بیٹھ کر دنیا بھر میں اپنے لاکھوں سامعین تک لائیو پہنچانے کا موقع ملا۔ اور اس دوران بہت سے گھپلے کرنے او ر پھر ان گھپلوں سے لطف اندوز ہونے کا مو قع بھی ملا ۔ گھپلے نشریاتی زبان میں ان چھوٹی بڑی غلطیوں کو کہتے ہیں جو لائیو نشریات کےدوران پیش آتی ہیں اور جن پر کسی کا کوئی بس نہیں چلتا ۔ وہ بس ہو جاتی ہیں اور ان پر ہم سوائے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔

صلاح الدین احمد۔۔ فوٹو بشکریہ ظہور زاہد

تو اب جب صلاح الدین صاحب ہمارے ساتھ نہیں میں چاہوں گی کہ ان کے ساتھ جڑی کچھ شگفتہ یادوں کو بھی آپکے ساتھ شئیر کیا جائے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب صلاح الدین صاحب نے کلائی کی ایک گھڑی خریدی جس کا الارم مرغےکی ککڑوں کوں کی بانگ تھی۔ جو گاہےگاہے ہمارےدفتر میں گونجتی رہتی تھی ۔ ہم نے ان سے کہا کہ صلاح الدین صاحب یہ بہت خطرناک الارم ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن لائیو اسٹوڈیو میں بج جائے۔ لیکن انہوں نےکہاکہ، نہیں نہیں ! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نےاسےایسے سیٹ کیا ہے جواسٹوڈیو کا وقت نہیں ہے۔

لیکن پھر ایک دن ہوا یوں کہ میں ان کے ساتھ اسٹوڈیو میں ایک رپورٹ پیش کرنے کےلیے موجود تھی اور وہ کاغذوں پر لکھی خبروں کے ایک موٹے پلندے سے دس منٹ کی لائیو خبریں پیش کر رہے تھےکہ اچانک ان کا الارم بجنا شروع ہو گیا ۔ صلاح الدین صاحب کے لیےاب مسئلہ تھا کہ اب کریں تو کیا کریں ، ایک طرف خبروں کے پلندے کو سنبھالنا ، خبروں میں کوئی وقفہ دئے بغیر لائیو خبریں پڑھنا اور اس دوران گھڑی والے ہاتھ کو میز کے نیچے جھکا کر اس الارم کو بند کرنے کی کوشش کرنا ، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن صلاح الدین صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ یہ سب کام ایک ساتھ کرنے میں کامیاب رہے۔ میں اور اسٹوڈیو میں رپورٹ پڑھنے کے لیے تیار میری ایک اور ساتھی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتےتھے سوائے اپنی ہنسی بلکہ اپنے قہقہوں کو ضبط کرنے کے۔ بعد میں صلاح الدین صاحب بھی اپنی مخصوص خوشدلی کے ساتھ اس ہنسی میں شامل ہوگئے۔

صلاح الدین صاحب کی طبیعت میں قدرے بے چینی تھی، وہ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے۔ بقول ہمارے ایک اور سینئر ساتھی مرحوم خواجہ شمس الحسن کے "وہ ایک بڑے سےبچے تھے۔"

یہ کہنا سچ ہوگا کہ صلاح الدین صاحب ہم سب کے لاڈلے بزرگ تھے اور وہ بھی ہمیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے تھے۔

اور اپنے انتہائی مشفق رفیق کار کو الوداع کہنا اور بھلانا ہم سب کےلیے آسان نہیں ہوگا۔ وہ وی او اے کی تاریخ کا ایک اہم باب تھے جو اگرچہ تمام ہوا لیکن وائس آف امریکہ کے لیے ان کی طویل خدمات اس تاریخ میں رقم رہیں گی۔

اسد احمد

صلاح الدین صاحب سے زیادہ مضبوط اعصاب کے کسی شخص سے عملی زندگی میں شاید ہی واسطہ رہا ہو۔ جب میں واشنگٹن آیا تو ان کے لیے اپنے جوان بیٹے کو سپرد خاک کرنے کا دکھ تازہ تھا، کچھ برسوں بعد شریک حیات بھی ہمیشہ کی نیند سو گئیں اور وہ اکیلے ہو گئے۔ سوچتا ہوں ان کے لیے تو گھر ہی نہیں، پورا شہر سائیں سائیں کرتا ہو گا۔ دفتر میں مگر مضبوطی سے، دلجمعی سے مصروف عمل رہتے۔ بہت پڑھے لکھے تھے ۔ ڈگریوں کی بات نہیں کر رہا، ان کا کیلیبر، ان کا تجربہ، ان کی وزڈم، ان کی نالج اور اورا تھا۔ اکثر ان کے ورک اسٹیشن سے ایک آواز آتی ’ ربش‘۔ میں تو سہم جاتا، کہیں میرا اسکرپٹ تو ان کے سامنے نہیں آ گیا۔

صلاح الدین احمد۔۔ فوٹو بشکریہ ظہور زاہد

ریڈیو کے نیوز آور میں ہمارا ایک سیگمنٹ تھا جو امریکی اخبارات کے اداریوں پر مبنی تھا۔ ہم میں سے کئی کولیگز کے لیے یہ ایک مشکل کام تھا، اور صلاح الدین صاحب کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل۔ اداریے اگرچہ انٹرنیٹ پر دستیاب تھے مگر جہازی سائز کے اخبارات کی ورق گردانی ان کو پسند تھی۔ اور وہ منٹوں میں کئی اداریوں اور او پیڈز کا خلاصہ تیار کر لیتے۔

اٹھاسی سال کی عمر میں، مکمل صحت کے ساتھ انہوں نے وی او اے کو خیرباد کہا لیکن دو سال بعد ایک کولیگ سے ملے تو ان سے کہنے لگے، شاید میں نے ریٹائرمنٹ کے فیصلے میں جلد کر دی ہے۔

ظاہر ہے ذہنی اور جسمانی طور پر توانا تھے۔ ایک بار ان کو ریٹائرمنٹ کے موضوع پر کسی سے بات کرتے سنا تھا۔ ان کا ایک جملہ آج بھی یاد ہے۔ جو ان کی عملیت پسندی اور آخری دم تک کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی لگن کو ظاہر کرتا ہے۔

“The best death is to die with boots on”

آپ اپنے رفتگاں، اپنے پیاروں کے جہان میں خوش رہیں صلاح الدین صاحب۔

خالد حمید

منگل ستائیس اگست کی دوپہر ،سخت گرمی کے باوجود ،انکے چاہنے والے ،وائس آف امریکہ کے تمام ساتھی مرد و خواتین اور انکی کشمیری کمیونٹی کے بیشتر افراد ،الیگزینڈریا ،ورجینیا کے قبرستان میں ،انکو قبر میں اتارے جانے کا منظر بڑی حسرت و یاس سے دیکھ رہے تھے ۔انکی ساتھی خواتین اپنے آنسوؤ ں میں انہیں رخصت کر رہی تھیں اور مرد حضرات اپنے آنسو ضبط کئے ،انکے ساتھ گزرے وقت کو یاد کر رہے تھے۔

اور میں سوچتا رہا کہ یہ وہ صلاح الدین ہیں جو اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کے سنٹرل نیوز روم میں ،کنٹرولر کی سیٹ پر بیٹھے ہوتے تھے تو کیا رعب اور دبدبہ ہوتا تھا، چاروں طرف ،سٹینو گرافر اور سٹاف بیٹھا ہوتا ،انکو ڈکٹیشن دیتے جاتے اور خبروں کی ایڈٹنگ کرتے جاتے ،پھر اس نیوز روم سے خبریں ،مختلف زبانوں کے شعبوں کو بھیجی جاتیں تھیں جنکا ترجمہ ہوتا اور روزانہ کتنے ہی بلیٹن نشر ہوتے ۔ہم تو اس وقت اردو کی خبریں پڑھنے کے لئے آتے تھے ،تو محض انہیں دور سے دیکھتے تھے کھبی سلام دعا ہوجاتی ،لیکن قریب جانے کی ہمت نہ ہوتی ،کیونکہ وہ بے انتہا مصروف ہوتے تھے۔

وہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا ،جس میں ساری کمان انکے ہاتھ میں تھی اور ڈائرکٹر نیوز کے بعد انکی حاکمیت تھی ،بلکہ وہ اگر خوشامند پسند اور حکمرانوں کے چاپلوس ہوتے تو بہت پہلے ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز ہوچکے ہوتے ،لیکن انکی خودداری اور بے پناہ قابلیت نے انہیں جھکنے نہ دیا ۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ،ملنے کے نہیں ،نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم،اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

یوسف جمیل

یوسف جمیل لکھتے ہیں صلاح الدین احمد شاہ صاحب ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار صحافی اور منجھے ہوئے براڈکاسٹر تھے جس کا میں نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ جب بھی وہ وائس آف امریکہ کے لیے میرا کوئی ڈسپیچ سنتے یا میری کوئی تحریر اُن کی نظر سے گزرتی اور انہیں اس میں کوئی خامی دکھتی تو وہ مجھے فون کرکے آگاہ کرتے اور غلطی نہ دہرانے کی تاکید کرتے۔ میری کسی کاوش میں کوئی بڑی خوبی نظر آنے کی صورت میں بھی وہ فون کرکے میری حوصلہ افزائی کرتے۔ لہٰذا وہ وائس آف امریکہ میں میرے سینئر ساتھی ہی نہیں بلکہ میرے استاد بھی تھے۔

صلاح الدین صاحب کی اپنے آبائی وطن کشمیر بالخصوص اس کی راجدھانی سری نگر جہاں وہ پیدا ہوئے تھے کے لیے تڑپ انتہا پر تھی اور کچھ فکرِ وطن بھی۔ وادی کشمیر پُرآشوب حالات میں گھری ہوئی تھی تو وہ خود کو زمینی حقائق سے باخبر رکھنے کے لیے بھی مجھے فون کرتے اور ان کا پہلا استفسار ہوتا 'کوتھ واتیو 'یعنی کہاں پہنچے۔

صلاح الدین احمد۔۔ فوٹو بشکریہ ظہور زاہد

ہماری آخری ملاقات سری نگر ہی میں ہوئی تھی۔ میں نے اُن سے اُن کے بھتیجے زاہد ظہور کی اس استدعا کے بارے میں کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ اپنے آبائی وطن ہی میں گزاریں اور انہیں اور دیگر عزیزوں کو خدمت کرنے کا موقع دیں پوچھا تو انہوں نے جوابا" کہا " حسیب اور میری اہلیہ جس قبرستان میں مدفون ہیں میں نے اپنے لیے بھی وہیں پرقبر کے لیے جگہ وقف کروادی ہے ۔ مرنے کے بعد مجھے جو سکون وہاں ملے گا کہیں اور نہیں مل سکتا"۔

مجھے اُن کے درد کا پہلے ہی احساس تھا اور یہ اندازہ بھی کہ جوان سال بیٹے اور شریکِ حیات کی موت نے انہیں اندر سے توڑکر رکھ دیا ہے۔ہم فون پر مسلسل رابطے میں رہے لیکن میں نے ظہور کی اس خواہش کا ان کے سامنے پھر کبھی ذکر نہیں کیا۔

سہیل انجم

وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے دو دہائی سے زیادہ عرصے کی وابستگی کے دوران متعدد سینئر صحافیوں اور براڈ کاسٹرز کے ساتھ کام کرنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سکھانے والوں میں صلاح الدین صاحب بھی رہے ہیں۔ بھارت سے رپورٹ کے لیے دوسرے براڈکاسٹرز کی طرح بعض اوقات ان کا بھی فون میرے پاس آتا اور ان کا اصرار ہوتا کہ آج دہلی سے کوئی رپورٹ چاہیے۔

ابتدائی ایام میں ایسا بھی ہوتا کہ کسی جگہ کوئی لفظ نامناسب ہے تو وہ اس کی جگہ پر بہتر متبادل لفظ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جو لفظ بتاتے وہ بہت مناسب اور صحافتی تقاضوں کے مطابق ہوتا اور اس کے استعمال سے اسکرپٹ بہتر ہو جاتا تھا۔ اگرچہ دیگر ایڈیٹرزکے مقابلے میں صلاح الدین صاحب سے ٹیلی فونک رابطہ کم رہا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ ان کے اکلوتے فرزند کے انتقال پر دوسرے ساتھیوں کی طرح مجھے بھی بہت صدمہ پہنچا تھا اور اب ان کے انتقال کی خبر نے بھی دل گرفتہ کر دیا ہے۔ دل سے ان کی مغفرت کی دعا نکلتی ہے۔

صلاح الدیں صاحب کے لئے تعزیتی اجلاس سری نگر میں

صلاح الدین احمد کے آبائی شہر سری نگر میں واقع ٹیگور ہال میں جمعرات کو ان کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کے دوراں وادی کشمیر کے سرکردہ صحافیوں ، براڈ کاسٹرز، ادیبوں ، شاعروں اود دیگر شرکاء نے انہیں ان کی صحافتی خدمات اور انسان دوست فطرت کے لیے شاندار الفاظ میں خراج عقیدت ادا کیا ۔ کئی ایک مقررین نے جن میں ان کے بھتیجے براڈکاسٹر ظہور زاہد بھی شامل تھے صلاح الدین صاحب کی اپنی جنم بھومی سے محبت اور لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضرور امریکہ میں آباد تھے لیکن ان کا دل کشمیر کے لیے دھڑکتا تھا۔

ہم سب کی بیشمار یادیں صلاح الدین صاحب سے جڑی ہیں جو کبھی تو مسکراہٹوں اور کبھی آ نکھ کی نمی میں ڈھل جاتی ہیں۔ ان کے سب ہی ساتھی ان کو آخری منزل تک پہنچانے کے لئے ماؤنٹ کمفرٹ میں موجود تھے۔ عشروں کے ساتھ کا اظہار لفطوں میں کہاں ممکن ہوتا ہے۔ یہ تو دل کے رشتے ہیں جو آخری سانس تک ساتھ چلتے ہیں۔