ریڈیو پاکستان کے نیوز کنٹرولر سے وائس آف امریکہ کی اردو سروس تک ایک انتہائی پروفیشنل اور اپنے کام کو بہترین انداز میں جاننے اور انجام دینے والے صلاح الدین صاحب سے میری ہر ملاقات میری یاد کا حصہ ہے۔ میں نے اپنے پروفیشن کے اس طویل سفر میں ان جیسا با شعور اور اپنے کام کو جاننے والا کم دیکھا ہے۔
وہ ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ سو ہم بھی ان کے پرستار ہو گئے۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جب بھی میں انہیں دیکھتا تو سوچتا کہ کیا ان سے مصطفیٰ راہی بیگ کا ذکر کروں جو اکثر کہتے تھے کہ عبید ہمارے پرانے دوست ہیں مراد آباد کے زمانے کے!
کبھی جو تصور میں بھی نہیں تھا، اس کرونا نے وہ کر دکھایا۔ اب تو عید ماضی کی خوب صورت یادوں میں ہی رہ گئی ہے۔
مجھے سابق صدر براک اوباما کی پہلی تقریبِ حلف برداری یاد آ رہی ہے جو چند خوب صورت ترین تقاریب میں سے ایک تھی۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے اس تقریب کی لائیو نشریات کے دوران اس پر رواں تبصرے کے لیے مجھے چنا تھا۔
لیاقت باغ کے وسیع میدان میں بہت بڑا اجتماع تھا، سٹیج پر سکول اور انجمن فیض اسلام کے عہدیداروں کے ہمراہ کرسی صدارت پر محترمہ فاطمہ جناح تشریف فرما تھیں، پر نور چہرہ، سفید ریشمی بال اور سفید لباس کے ساتھ سفید دوپٹّہ، لگتا تھا کہ آسمان سے کوئی پری اتر آئی ہے
عبدالله کشتی میں سوار ہو کر ترکی سے یونان کے جزیرے کوس جا رہا تھا۔ سمندر کی لہرین بپھرنے لگیں تو ترک سمگلر کشتی چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ ایک گھنٹے تک تند و تیز لہروں پر ڈولنے کے بعد، کشتی الٹ گئی۔۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ خسرہ کے خلاف مہم چار سال تک کیوں نہیں چلائی گئی اور جب خسرہ نے موت کی شکل میں رواں سال کے پہلے مہینے میں ہی سر اٹھا لیا تھا تو تب فوراً ویکسین کیوں نہیں خریدی گئی؟
میاں نوازشریف کا چند سیکنڈز کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی خدا حافظ کہہ کر جاتے تو اچھا ہوتا۔
مجھے یاد ہے کتنی ہی راتیں میں نے آنکھوں میں کاٹیں۔۔۔ سونے کی کوشش کرتی تو شاہ زیب کا مسکراتا چہرہ جیسے ہر بار آنکھوں کے سامنے آجاتا۔۔۔ پھر شاہ رخ جتوئی کے چہرے کی رعونت اس عکس کو دُھندلا دیتی۔۔۔ غم کی جگہ غصہ لے لیتا۔۔۔ افسوس کی جگہ طیش۔۔۔ بے وقت، بے ثمر، بے اثر طیش۔۔۔ بھلا غُصّے اور طیش سے ان زخموں کا مداوا ممکن ہے؟۔۔۔
جب میں نے ان 10 کہانیوں پر اپنی رپورٹ مکمل کی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے مختلف علاقوں میں، اتنے مختلف ادوار میں لکھی ہوئی کہانیوں میں اگر کوئی چیز مشترک تھی، تو وہ تھا لفنگا!!
اب پاکستان میں شدت پسندی کا خوف نہ لاہور میں ہوگا نہ کراچی میں، نہ بلوچستان میں اور نہ خیبر پختونخواہ کے کسی علاقے میں۔ ڈی چوک اسلام آباد کے باہر احتجاج کرنے والے گم شدہ افراد (مسنگ پرسنز) کے لواحقین بھی اب جلد اپنے پیاروں کو دیکھ پائیں گے۔
کبھی کبھی مجھے اپنا آپ ہی بُرا لگنے لگتا، مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ایک نیک سیرت اور مشرقی اصولوں کی پاسداری کرنے والی لڑکی کو ورغلانے پر مجھے اللہ میاں سے سزا ضرور ملے گی۔۔۔
مزید لوڈ کریں