چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کو 100 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر بیجنگ میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر شی جن پنگ نے غیر ملکی طاقتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ چینی قوم پر حملوں سے باز رہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں جمعرات کو چین کے دارالحکومت بیجنگ کے تیانمین اسکوائر میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں 70 ہزار افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
چینی صدر نے تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ چینی قوم کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والی بیرونی طاقتوں کے اپنے 'سر جھک جائیں گے۔'
شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین کے لوگ کبھی کسی غیرملکی طاقت کو ان کی توہین کرنے، انہیں دبانے یا محکوم بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی نے ایسا کرنے کی جرات کی تو ان کے سر ایک ارب چالیس کروڑ چینی لوگوں کی آہنی دیوار کے سامنے لہو لہان ہو جائیں گے۔
شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں چین کے لوگوں کی جانب سے قائم کی جانے والی 'نیو ورلڈ' کی بھی تعریف کی اور کہا کہ چین کے عوام نہ صرف پرانی دنیا کو تباہ کرنے میں اچھے رہے بلکہ انہوں نے نئی دنیا بھی قائم کی ہے۔ ان کے بقول 'صرف سوشلزم ہی چین کو محفوظ کرسکتا ہے۔'
SEE ALSO: چین میں ایغور مسلمانوں کے بعد اب آٹسلز مسلمان زیرِ عتابیاد رہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی 1949 سے حکمرانی میں ہے جب کہ اس کے قیام کو 100 برس مکمل ہو چکے ہیں۔ البتہ اس جماعت کے بارے میں پانچ ایسی چیزیں ہیں جنہیں عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سو سال قبل قائم ہونے والی کمیونسٹ پارٹی کی خاصیت 'رازداری' ہے۔
ایک صدی قبل شنگھائی میں غیر قانونی مارکسٹ انڈرگراؤنڈ تحریک سے وجود میں آنے والی پارٹی کو معلومات پر سخت کنٹرول، نگرانی اور اختلافِ رائے کو ختم کرنے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
چین کی حکمران جماعت کے بارے میں اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پانچ ایسی چیزیں ہیں جس پر عام طور پر بات کرنا ناپسند کیا جاتا ہے۔
اس کے ارکان کون ہیں؟
پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے نو کروڑ 51 لاکھ اراکین ہیں لیکن ان افراد کے ناموں کی مکمل فہرست کبھی سامنے نہیں لائی گئی۔
پارٹی کا رکن بننے کا عمل صرف سائن اپ سے بہت دور ہے۔ اس کے لیے دو سال کی سخت درخواست کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو امیدوار کی بے داغ ذاتی تاریخ پر منحصر ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں موجود بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بعد کمیونسٹ پارٹی دنیا کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کے اراکین کی تعداد 18 کروڑ ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے آرگنائزیشن ڈپارٹمنٹ کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پارٹی کے صرف 65 لاکھ اراکین مزدور ہیں جب کہ دو کروڑ 58 لاکھ زرعی ملازمین ہیں۔ اس کے برعکس چار کروڑ 10 لاکھ وائٹ کالر پروفیشنلز ہیں جب کہ ایک کروڑ 90 لاکھ ریٹائرڈ افراد ہیں۔
بیجنگ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار وو کی آنگ کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ سطح کانفرنسز میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ایک خالص سیاسی جماعت ہے جسے بیوروکریٹ کلاس کی جانب سے بنایا گیا ہے۔
جماعت کی فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟
اے ایف پی کے مطابق چائنیز کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کا بجٹ عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا جب کہ اس کے رہنماؤں کی ذاتی دولت ایک انتہائی حساس موضوع ہے۔
سی سی پی کے اراکین اپنی آمدنی کا دو فی صد تک کا حصہ پارٹی خزانے میں دیتے ہیں۔ سال 2016 میں ایک سرکاری جنرل نے رپورٹ کیا تھا کہ گزشتہ سال کی شراکت کی مجموعی رقم سات ارب آٹھ کروڑ یوآن یعنی ایک ارب ڈالر تھی۔
SEE ALSO: چین میں بی بی سی ورلڈ سروس کی نشریات پر پابندی لگ گئیالبتہ یہ شراکت اس کی آمدنی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
ہانگ کانگ بپتست یونیورسٹی کے جین پیئر کیبستان کہتے ہیں کہ پارٹی ایک معاشی سلطنت کی سربراہ ہے اور یہ براہ ِراست کمپنیوں، ہوٹلوں اور فیکٹریوں کا انتظام دیکھتی ہے۔
اس کے علاوہ اس کے رہنماؤں کی تنخواہیں اور مراعات بھی اب تک ایک سربستہ راز ہے۔
واضح رہے کہ 2012 میں بلوم برگ کی تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ صدر شی جن پنگ کے قریبی رشتے داروں کے پاس اربوں یوآن مالیت کے اثاثے ہیں۔
کتنے متاثرین ہیں؟
چین کی تاریخ کے مختلف غیر ملکی اسکالرز کا یہ اندازہ ہے کہ 1949 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پارٹی کی پالیسیز کے نتیجے میں چین میں چار سے سات کروڑ کے درمیان لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
ان میں کئی داخلی معاملات شامل ہیں جس میں گریٹ لیپ فارورڈ- ماؤ زی ڈونگز کی تباہ کن معاشی پالیسی جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے ہلاک ہوئے، تبت میں جبر، دہائیوں طویل ثقافتی انقلاب اور 1989 کا تیانمین اسکوائر کا کریک ڈاؤن شامل ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق چین کو مسلسل قیدیوں اور کالعدم فالون گونگ روحانی تحریک کے خاص اراکین کے جبری طور پر اعضا کاٹنے کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ البتہ بیجنگ کی جانب سے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانک میں لگ بھگ دس لاکھ ایغور مسلم اور دیگر اقلیتوں کو حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے جب کہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ اسے اسلامی انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔
مخالفین کون ہیں؟
گزشتہ کچھ برسوں میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں اور وکلا کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا ہے۔
صدر شی جن پنگ کے دور میں ماہرین کے مطابق سول سوسائٹی کے لیے جگہ محدود ہو گئی ہے۔ کرپشن کے خلاف ان کی کارروائیوں کے تحت دس لاکھ سے زائد حکام کو سزائیں دی گئی ہیں۔ البتہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ مہم سیاسی حریفوں کو دبانے کے لیے بھی استعمال کی گئی ہے۔
سال 2015 میں سیکڑوں وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جب کہ ہانگ کانگ میں درجنوں افراد پر قومی سلامتی قانون کے تحت مقدمات قائم کیے گئے۔
SEE ALSO: کیا جیک ما کی 'گمشدگی' کی وجہ اُن کی تقریر ہے؟کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ملک میں حقیقی حمایت کو فروغ دیا گیا ہے لیکن میڈیا پر سخت کنٹرول نے ان رپورٹس کا بھی لگ بھگ خاتمہ کر دیا ہے جو تنقیدی ہوتی ہیں اور آن لائن تبادلہ خیال کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔
خفیہ ملاقاتیں
سی سی پی کا کانگریس اجلاس عام طور پر متفقہ فیصلوں پر ہی اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح 200 اسٹرانگ سینٹرل کمیٹی کے اعلیٰ سطح اجلاس بھی سیاسی بیورو کی طرح بند دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔
عام طور سرکاری ٹیلی ویژن سرکاری سطح پر منظور شدہ اعلامیہ ہی نشر کرتا ہے اور اگر ان اجلاسوں کے دوران کوئی بحث ہوتی ہے تو اسے عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔
کیبستان کہتے ہیں کہ داخلی معاملات کو چھپانے سے سی سی پی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے اور چین کے دشمنوں کے سامنے ایک سخت مزاحمت کر سکے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'رائٹرز' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔