شی جن پنگ  کیلئے تا حیات چینی صدر رہنے کی راہ ہموار

چینی صدر شی جن پنگ اپنا ووٹ کاسٹ کر ہے ہیں

چین نے اتوار کے روز آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے صدر کیلئے زیادہ سے زیادہ دو مدتوں کی حد حذف کر دی ہے۔ یوں موجودہ صدر شی جن پنگ کیلئے غیر معینہ مدت تک چین کا صدر رہنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

اس اقدام کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ صدر شی ماؤ زے تنگ کے بعد چین کے سب سے زیادہ طاقتور لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔

صدر کیلئے دو مدتوں کی حد ختم کرنے کیلئے تجویز چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ایک ماہ قبل پیش کی تھی اور اس بات میں کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا کہ یہ تجویز نہایت آسانی کے ساتھ پارلیمان میں منظور کر لی جائے گی۔

آئین میں کی گئی تبدیلی میں صدر شی کے سیاسی نظریے کو بھی آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ صدر شی کے آئینی نظریے کو اس سے پہلے گزشتہ اکتوبر میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں شامل کر لیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ میں کل 3000 ہزار ارکان میں سے صرف دو نے تجویز کے خلاف ووٹ دیا جبکہ تین ارکان غیر حاضر رہے۔ باقی تمام ارکان نے تجویز کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ووٹنگ کے دوران کچھ وقت کیلئے میڈیا کے ارکان کو عظیم عوامی ہال سے باہر نکال دیا گیا جب ارکان بیلٹ پیپر پر کر رہے تھے۔ تاہم بعد میں میڈیا کو اُس وقت واپس بلا لیا گیا جب پارلیمان کے ارکان بڑے لال رنگ کے بیلٹ بکسوں میں باری باری ووٹ ڈال رہے تھے۔

سب سے پہلے صدر شی نے خود اپنا ووٹ کاسٹ کیا جس کے بعد پارٹی کی ایلیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کے چھ ارکان نے ووٹ ڈالے۔ ووٹنگ کے اختتام پر جب اس تجویز کے منظور ہونے کا اعلا ن کیا گیا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ تاہم صدر شی نے اس موقع پر پالیمان سے خطاب نہیں کیا۔

64 سالہ صدر شی نے 2012 میں بر سر اقتدار آتے ہی اپنے اختیارات اور طاقت کو مستحکم کرنے کے اقدامات شروع کر دئے تھے۔ لہذا صدارت کی مدتوں کی حد ختم کرنے کا اقدام غیر متوقع نہیں تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر ناقدین نے اس اقدام کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ذریعے ماؤ زے تنگ کیسی شخصیت کو اُبھارا جا رہا ہے۔ کچھ تنقید کرنے والوں نے اس اقدام کو شمالی کوریا کے نظام سے مشابہہ بھی قرار دیا۔

تاہم چینی حکومت نے ایسے بیانات کو بلاک کرتے ہوئے تجویز کے حق میں شدت سے تشہیری مہم چلائی اور ایسے بیانات کو نمایاں طور پر شائع کیا جن میں اس اقدام کی حمایت کی گئی تھی۔

چینی پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے حکمران جماعت کے ارکان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام چین کے عام لوگوں میں انتہائی مقبولیت رکھتا ہے۔