ایرانی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اس کے ملک نے عراق میں اپنے ایک اعلی جنرل کی ڈرون حملوں مین ہلاکت کی پہلی برسی کے اگلے ہی دن منگل کو ملکی ساختہ ڈرون کا وسیع پیمانے پر تجربہ کیا ہے۔
ایران اوراس کی حمایت کرنے والی علاقائی قوتوں کا حالیہ برسوں کے دوران یمن، شام، عراق اور خلیج کے دہانے پر واقع آبنائے ہرمز میں ڈرون پر انحصار بڑھا ہے۔
نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز ایجنسی کے مطابق وسطی سیمنن صوبے میں جاری دو روزہ مشقوں کے دوران ایرانی مسلح افواج جنگی ڈرون سے بمباری، دشمن کا راستہ روکنے اور امدادی مشنوں میں استعمال کی جانچ کر رہی ہیں۔
ایک امریکی اہلکار نے گزشتہ سال خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا تھا کہ ایرانی ڈرون نگرانی کے علاوہ فوجی اسلحہ پہنچا سکتے ہیں اور انہیں دھماکہ خیز مواد سے بھر دیا جائے تو وہ اسے اسپیشل اٹیک یونٹ کی طرح بھی لے جا سکتے ہیں اور اپنے ہدف پر گرا سکتے ہیں۔
ایران نے بین الااقوامی پابندیوں کے دوران جس میں اس پر بہت سے ہتھیاروں کی درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، مقامی سطح پر فوجی صنعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دی ہے۔
مغربی فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اکثر اپنے ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، جب کہ اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے خدشات کی وجہ سے ہی واشنگٹن نے 2018 میں ایران کے عالمی جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
یہ مشقیں بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی پہلی برسی کے دو دن بعد ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب ایران اور امریکہ کے مابین کشیدگی بڑھ رہی ہے اور نو منتخب صدر جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے میں اب صرف دو ہفتے باقی ہیں۔
بائیڈن ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ان مشقوں سے ایران امریکہ سفارت کاری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
پیر کے روز ایرانی افواج نے خلیج میں جنوبی کوریائی ٹینکرپر قبضہ کر لیا، اور تہران نے یورنیم کی افزودگی بڑھانے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا ہے۔