پاکستان کی وزات خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے افغان طالبان کے اسلام آباد کا دورہ کرنے کی اطلاعات پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان میڈیا اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے ہیں جس کی تصدیق کسی بھی فریق نے نہیں کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق قطر میں قائم افغان طالبان کے دفتر کے ایک وفد نے طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخونزادہ کی رضامندی سے افغان حکومت سے مذاکرات شروع کرنے کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے شہاب الدین کی سربراہی میں افغان طالبان کے وفد نے رواں ہفتےاسلام آباد کا دورہ کیا تھا ۔ تاہم طالبان کی طرف سے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی باضابطہ طور پر پاکستان کی طرف سے اس بارے میں کچھ کہا گیا ہے۔
بعض مبصرین نے کا طالبان کے وفد کے اسلام آباد دورے کرنے کے امکان کو رد نہیں کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ طالبان کو مذکرات پر لایا جائے۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں کبھی بھی ختم نہیں ہوئیں اور ان کے بقول اسلام آباد میں طالبان وفد کا آنا افغان بات چیت کے عمل کے دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے اہم ہو سکتا ہے۔
" یہ جو اطلاعات ہیں ان میں کسی حد تک صداقت ہے کہ قطر میں جو طالبان کا سیاسی دفتر ہے ان کے ایک نمائندہ شہاب الدین دلاور کی سربراہی میں کچھ لوگ قطر سے پاکستان آئے ہیں اور ان سے ہمارے (پاکستان) کے اداروں کے نمائندوں کی بات چیت ہوئی ہے۔ "
پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ طالبان کے وفد کا اسلام آباد آنا ان کے بقول انہیں افغان امن و مصالحت کے عمل میں شامل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
" یہ وثوق سے نہیں کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی دباؤ کے تحت لایا گیا ہے یا وہ خود اپنی مرضی سے آئے ہیں۔ ان سے یہی کہا جار ہا ہے کہ وہ امن و مصالحت کے عمل میں شامل ہو جائیں۔۔۔۔اگر وہ خود آ ئے ہیں تو پھر پیش رفت ہو سکتی ہے۔"
واضح رہے کہ اسلام آباد میں طالبان کے وفد کی آمد سے متعلق منظر عام پر آنے والی اطلاعات سے پہلے ترکی میں طالبان کے رابطہ کاروں اور حزب اسلامی کے نمائندوں کے درمیان غیر رسمی بات چیت کی خبریں بھی سامنے آئیں۔
دوسری طرف خبر رساں ادارے روئٹرز نے افغان صدر اشرف کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہیں اسلام آباد مذاكرات کا علم نہیں ہے۔ جب کہ طالبان نے اس سلسلے میں بار بار پوچھے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
دونوں فریقوں نے ترکی مذاكرات میں حصہ لینے کی خبروں سے انکار کیا ہے۔
پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان غیر مشروط مذاکرات پر زور دیتا رہا ہے ۔ اس سے پہلے براہ راست امن مذاكرات شروع کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔